احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
حسن تخلص کیونکر پیدا ہوتا۔ حسن تخلص تو مبنی اس پر ہے کہ شاعر تشبیب سے غرض کی طرف اعلیٰ درجہ کی مناسبت سے رجوع کرے۔ جیسے متنبی کہتا ہے: خلیلی انی لا اری غیر شاعر فکم منہم الدعویٰ ومنی القصائد فلا تعجبان السیوف کثیرۃ ولکن سیف الدولۃ الیوم واحد اور کیا اچھا حسن تخلص ہے کہ ایک شعر میں ابوطیب متنبی نے سیف الدولہ کی مدح میں ادا کیا ہے۔ وہ کہتا ہے: نودعہم والبین فینا کانہ قنا ابن ابی الہیحاء فی قلب فیلق یعنی ہم ان کو دواع کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا فراق ہمارے لئے سیف الدولہ کا نیزہ ہے جو لڑائی کے دن وسط لشکر میں پڑتا ہے۔ اسی طرح اور بھی قصائد ابن الرومی اور متنبی وغیرہ کے اس کے شاہد ہیں۔ اس قصیدہ کے ہر دو مطلع اعلیٰ درجہ کے تخلص پر مبنی ہیں۔ جس کو ارباب بصیرت اعلیٰ درجہ کے محاسن میں شمار کرتے ہوئے داد دیں گے۔ ۹… اس قصیدہ کے ہر دو مطلع آخر تک نہایت متانت اور خوش کلامی پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ کسی مہذب باوقار کا کلام ہونا چاہئے۔ سفیہانہ اور جاہلانہ طریقہ اختیار نہیں کیاگیا ہے۔ ہاں جہاں سے مرزا قادیانی کے قصیدہ کا جواب ترکی بہ ترکی دیا ہے۔ وہاں سے البتہ اسی قسم کے الفاظ لکھے گئے جو مرزاقادیانی نے اپنے خصم کے لئے لکھے تھے۔ بلکہ بہت اشعار بعینہ لوٹا دئیے گئے ہیں اور یہ بطریق قول بالموجب ہے جو محاسن کلام سے ہے۔ ۱۰… ان اشعار میں بڑے مباحث مندرج کئے گئے ہیں اور مرزاقادیانی کے دعوے کے بطلان کو مختلف طریقوں سے مختصر لفظوں میں دکھلایا گیا ہے۔ جن کے جواب اس وقت تک مرزائیوں سے نہ ہو سکے اور بڑے بڑے مضامین کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔ گویا دریا کو کوزہ میں بھر دیا گیا ہے جو کہ بلاغت کے مبحث ایجاز کا خاص مقصد ہے۔ ۱۱… یہ اشعار الحان نحویہ، صرفیہ اور محاورات کی غلطیوں سے پاک ہیں۔ بخلاف قصیدہ مرزاقادیانی کے ان کے اشعار ان عیوب سے پر ہیں جن کی تفصیل ابطال اعجاز مرزا حصہ اوّل میں موجود ہے۔ ۱۲… مرزاقادیانی کے قصیدہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام حسینؓ اور احادیث نبویہ اور امت محمدیہ کی نسبت قبیح اور شنیع الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی۔ یہ قصیدہ اس سے پاک اور خالی ہے کہیں اسلاف کرام کی شان میں ہرگز کسی قسم کی سوء ادبی نہیں کی