احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
مسلمان ہوں یا کافر، مرد ہوں یا عورت اور اسی وجہ سے متقدمین نے قواعد نحویہ، صرفیہ، لغویہ وغیرہ میں ہمیشہ انہیں عرب خالص کے اقوال سے استدلال پیش کیا ہے جو قبل از اختلاط عرب بالعجم تھے۔ کیونکہ وہی لوگ عربی زبان کے ممبر اور امام ہیں۔ ان کے بالمقابلہ زباندانی میں گرچہ وہ کتنا ہی بڑا طبیب، فقیہ، محدث ہو کسی کا قول معتبر نہیں اور یہی راز ہے کہ مولدین عرب اگرچہ وہ ابن الرومی اور متنبی جیسے باکمال کیوں نہ ہوں۔ ادباء کے ہاں ان کے مقابلہ میں ان کی دمڑی کی بھی وقعت نہیں اور چونکہ انبیاء علیہم السلام احکام کی تعلیم اور ہدایت کے لئے بھیجے جاتے ہیں اور تہذیب اخلاق کے لئے مبعوث ہوتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے بھی لغت یا محاورات وغیرہ میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کی اور یہی سر ہے کہ قرآن مجید میں فرمادیا گیا: ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم‘‘ چنانچہ اساتذہ دہلی اور لکھنؤ کا اردو زبان کے محاورات میں جس طرح اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کوئی پنجابی یا بنگالی اردو میں کوئی نثر یانظم خلاف قواعد ان اساتذہ کے لکھے اور پھر وہ فصاحت وبلاغت کا اس کلام کے مدعی ہو تو ہرگز کوئی شخص اس کے تسلیم کے لئے آمادہ نہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں مکہ معظمہ اور پھر اس میں قریش کی زبان اور اس میں بھی بنی ہاشم خصوصاً محمد رسول اﷲa جو امی محض تھے اور خالص زبان عربی ان کی مادری اور پدری بلکہ آبائی تھی اور انہیں کے سزاوار تھا کہ یوں کہیں آنچہ من گویم ہمان سند است۔ اب اس کے خلاف کوئی یہ کہے کہ قرآن مجید میں بھی خلاف قواعد عربیت کلام موجود ہے تو ہم ادھر عرض کریں گے کہ اپنے قواعد عربیت کو ان کے کلام معجز نظام سے درست کر لیجئے۔ قواعد کا ماخذ ان کا کلام ہے۔ ان کا کلام آپ کے قواعد کا پابند نہیں۔ حضرات ناظرین کوئی شاہزادہ دہلی یا لکھنؤ کا اردو بولے اور ایک بنگالی یا پنجابی اس پر اعتراض کرے کہ یہ خلاف قواعد اردو ہے تو اس کا جواب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ تم اپنے قول کو ان کے کلام سے درست کر لو یہ جو کہتے ہیں یہی صحیح ہے۔ کیونکہ قواعد کا ماخذ انہیں کا کلام ہے۔ بخلاف مرزاقادیانی کے اگر ان کاکوئی کلام عربی خلاف قوانین صرف ونحو وعروض ولغت وغیرہ ہوگا جن کا ماخذ انہیں عرب کا کلام ہے توہرگز قابل سماعت بھی نہ ہوگا۔ چہ جائیکہ فصیح وبلیغ ہو اور معجز ہونا تو بڑی بات ہے۔ اب میں آپ کو اس قصیدہ کی فوقیت کی وجوہ کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور خدا سے استعانت چاہتا ہوں۔ مرزاقادیانی کاقصیدہ جس بحر میں اور جس قافیہ اور حرف روی اور مجریٰ میں ہے یہ بھی اسی بحر اور قافیہ وغیرہ میں ہے۔ تاکہ ناظرین کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ مرزاقادیانی کے قصیدہ سے یہ قصیدہ فصاحت وبلاغت وغیرہ میں کیا پایہ رکھتا ہے۔