احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
بالفرض اگر مرزاقادیانی کی خاطر سے تھوڑی دیر کے لئے ہم تسلیم کریں کہ آپ عربی کے اچھے ادیب اور نثر ونظم کے ماہرہیں اور قصیدہ بھی جلد لکھ ڈالا۔ کیونکہ کسی فن کا ماہر جس مدت میں اس فن کو عمدگی سے دکھلائے گا، دوسرا نہیں ظاہر کر سکتا تو کیا اس سے مرزاقادیانی رسول اور نبی ہوگئے اور ان کو سزاوار ہو کہ اس بناء پر وہ دعویٰ نبوت کریں؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کے سزا وار اوّل تو وہ سرتاج ادبا وخطباء ہیں۔ جنہوں نے اس فن میں وہ کمال اور مہارت دکھلائی کہ آج اس فن کے جاننے والے ان کی پیروی کو اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ اس کے سوا مرزاقادیانی کے قصیدہ میں اعجاز کی کیا بات ہے۔ کیا اس میں کوئی قانون شریعت ہے یا وعظ وحکمت کی باتیں ہیں۔ یہ سب کچھ بھی نہیں۔ ہاں اپنی تعلّی ہے اور دوسروں کی ہجو فلاں ایسا اور فلاں ایسا اور میں ایسا اور میں ویسا سوا اس کے ناظرین دیکھ ڈالیں کہ تمام قصیدہ میں اور کیا دھرا ہے۔ خلاصہ یہ کہ نہ یہ قصیدہ معجزہ ہے نہ اس میں اعجاز کی کوئی شان ہے اور نہ اس میں اس کی قابلیت ہے۔ مگر چونکہ ابطال اعجاز کے حصہ اوّل میں قصیدہ کا وعدہ کیاگیا تھا اور جماعت احمدیہ کے اس لاف وگزاف کو جو یہ لوگ مرزاقادیانی کے قصیدہ کے متعلق کہتے ہیں۔ بند کرنا تھا۔ اس لئے میں نے ایک عجیب وغریب قصیدہ اہل علم کی خدمت میں پیش کیا ہے جو بہت سے وجوہ سے مرزاقادیانی کے قصیدہ سے برتر اور اعلیٰ ہے۔ اس کے ساتھ ہی نہ مجھے دعویٰ اعجاز ہے نہ تحدی اور نہ یہ دعویٰ ہے کہ یہ قصیدہ تمام شعراء متقدمین سے بڑھ کر ہے اور نہ آج اس کا پایہ فرزدق اور ابو تمام کے اشعار تک پہنچتا ہے۔ مگر ناظرین پر یہ ظاہر کر دینا ضرور ہے کہ مرزاقادیانی کا قصیدہ اتنی بھی وقعت ادیب کی نگاہ میں نہیں رکھتا ہے کہ جیسے معمولی قصیدے ادباء کے ہوا کرتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کا کلام ہونا تو دور بلکہ بہت بعید ہے اور اعجاز نبوت کی تو بہت بڑی شان ہے۔ قبل اس کے کہ میں مرزاقادیانی کے قصیدہ کے مقابلہ میں اس قصیدہ کے وجوہ بلاغت اور اسباب ترجیح کو عرض کروں۔ یہ امر ظاہر کر دینا ضرور ہے کہ ہر زبان کی فصاحت اور بلاغت اور اس کے محاورات اور لغات کے علم کے لئے اسی زبان کے ماہرین اور واقفین کا قول ماننا ضرور ہے جو اس زبان کے ممبر اور امام ہیں۔ نہ اس میں عقل وقیاس کو کچھ دخل ہے نہ غیرزبان والوں کو اس میں دست اندازی کا کوئی حق اور اسی طرح ہر فن اور صنعت کے لئے اس کے فن دان کے اقوال اور قوانین کا لحاظ ضروری ہے۔ جس طرح فن طبابت میں ماہرین فن انجینئر کی اسی طرح بے اعتباری ہے جیسے کسی گنوار جاہل ان پڑھ کی ہوتی ہے۔ ایسا ہی عربی زباندانی میں عرب عرباء کے اقوال کو ماننا فرض اور لازم ہوگا۔ خواہ وہ