احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
بیس دن کی مہلت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’پس میرا حق ہے کہ جس قدر خارق عادت وقت میں یہ اردو عبارت اور قصیدہ تیار ہوگیا ہے۔ میں اسی وقت تک نظیر پیش کرنے کا ان لوگوں سے مطالبہ کروں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۹۰، خزائن ج۱۹ ص۲۰۴) کیا مرزاقادیانی کوئی مثال انبیاء سابقین کی پیش کرسکتے ہیں کہ اتنی جدوجہد کے بعد ایسا انوکھا (مجموعہ اغلاط) معجزہ ملا ہو اور مخاطبین کو انہوں نے معارضہ کے لئے ایسے تنگ وقت کا پابند کیا ہو۔ کیا حضرت سید المرسلینa پر کوئی سورہ دو گھنٹہ میں اتری اور حضور نے مخاطبین کو معارضہ کے لئے دو یا چار گھنٹہ کا وقت دیا؟ نہیں۔ مجھے مرزاقادیانی کی سمجھ اور ان کے ماننے والوں کی عقل پر حیرت کے ساتھ افسوس ہے کہ جب ان کو نشان کے طور پر قصیدہ معجزہ دیاگیا اور روح القدس سے خارق عادت تائید ملی۔ پھر ایسی گھبراہٹ کیوں ہے کہ لوگوں کو بیس دن میں معارضہ کے لئے پابند کرتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سارا معجزہ اور دعا اور روح القدس اور خرق عادت سب کے سب بھاڑے کے چند روزہ تھے اور مرزاقادیانی کو خوف دامنگیر تھا اور اپنی کمزوریوں کو خوب جانتے تھے اور معارضہ کے روز بد سے ان کا دل دھڑکتا تھا۔ کاش کم سے کم اپنی زندگی ہی تک وقت کی توسیع فرماتے یا مخاطبین کی حیات تک تو خیر ایک بات تھی۔ لیکن بفضلہ وقت کے اندر ہی علماء نے مرزاقادیانی کا پیچھا نہ چھوڑا۔ جیسا کہ حصہ اوّل میں دکھایا گیا ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’دیکھو میں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتاہوں۔ اگر میں صادق ہوں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہیں ہوگا کہ مولوی ثناء اﷲ اور ان کے تمام مولوی پانچ دن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اردو مضمون کا رد لکھ سکیں۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ ان کے قلموں کو توڑ دے گا اور ان کے دلوں کو غبی کر دے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۷، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸) اب حضرات ناظرین انصاف سے دیکھیں کہ مخاطب تو تمام مولوی ہیں۔ خواہ عربی ہوںیاعجمی اور وقت ایسا تنگ صرف بیس دن میں جواب مرزاقادیانی تک پہنچنا چاہئے۔ آپ اس کی اشاعت کے لئے تمام یورپ، ایشیاء، افریقہ تینوں براعظم کو چھوڑ کر صرف ہندوستان ہی کو لے لیجئے کہ ہندوستان میں تمام مولویوں کے پاس ہر شہر اور قصبہ اور دیہات میں بیس دن میں اس رسالہ کا پہنچنا غیر ممکن ہے۔ اس پر اس کا جواب لکھنا اور چھپوانا اور مرزاقادیانی تک پہنچنا تو محال