احتساب قادیانیت جلد نمبر 59 |
|
۵…تحدّی وہ کرتا ہے جس نے لکھا، پڑھا اور ایک زمانہ تک کتب بینی کی۔ اس پر دس سال سے عربی میں اعجاز نمائی کا دعویٰ۔ (پیسہ اخبار مورخہ۲۲؍نومبر ۱۹۰۲ء) ۵…مدعی امّی محض (فداہ ابی وامی) اور دعویٰ یہ کہ انا بشر مثلکم میں تمہیں جیسا بشر ہوں۔ اس کے سوا جس قصیدہ میں سینکڑوں غلطیاں صرف، نحو، ادب، بیان، لغت، املاء، عروض، قافیہ کی ہوں۔ پھر اس پر سرقات بلکہ بعض جگہ تو اساتذہ کا پورا مصرعہ اٹھا کر رکھ دیا ہے۔ جیسا کہ عنقریب تنقید سے ظاہر ہوگا۔ اب حضرات ناظرین انصاف سے مجھے بتائیں کہ ایسا قصیدہ معجزہ ہوسکتا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ ہاں اگر مرزاقادیانی کی اصطلاح میں مجموعہ اغلاط ہی کا نام معجزہ ہو تو اس پر میرا بھی صاد ہے۔ کیونکہ لامشاحۃ فی الاصطلاح میں نے مرزاقادیانی کے اردو مضمون کا اس وجہ سے جواب نہیں لکھا کہ اس میں مرزاقادیانی نے وہی اپنے سب معجزات گنوائے ہیں جسے باربار وہ اپنے تالیفات میں بیان فرمایا کرتے ہیں جس کا جواب اس وقت تک ہمارے علمائے کرام کی طرف سے متعدد بار دیا جاچکا ہے۔ اس کے اعادہ سے اس مختصر میں طوالت کے سوا کوئی نفع نہیں۔ البتہ ایک بات نئی یہ ہے کہ مرزاقادیانی (ضمیمہ نزول المسیح ص۳۸، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸) میں فرماتے ہیں: ’’میں نے اس قصیدہ میں جو امام حسینؓ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے، یہ انسانی کارروائی نہیں۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راست بازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راست باز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید ’’من عادا ولیاً‘‘ لی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔‘‘ مجھے مرزاقادیانی کے علم اور سمجھ پر افسوس ہے کہ ایسی باتیں فرماتے ہیں کہ جن کو سن کر ہنسی آتی ہے۔ اولاً تاریخ شاہد ہے کہ خدا کو گالی دے کر اور انبیاء علیہم السلام کو قتل کر کے دنیامیں لوگ صحیح وسالم عرصہ تک زندہ رہے تو ولی پر بدزبانی کر کے زندہ رہنا ایک معمولی بات ہے۔ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کے لئے گرفتار کرنے والے اور ایذائیں دینے والے زندہ رہے اور حضرت امام حسینؓ کا قاتل عرصہ تک زندہ رہا۔ ثانیاً اگر یہ مان لیاجائے کہ مرزاقادیانی نے نفسانی خواہش سے ان دونوں راست بازوں پر بدزبانی نہیں کی۔ بلکہ خدا نے کی۔ تو سخت افسوس ہے کہ خدا بھی راست بازوں پر بدزبانی کرتا ہے؟ مرزاقادیانی نے اپنی ذات سے اگر الزام اٹھانا چاہا تو خدا ہی پر اتہام کیا۔ ’’ہرچہ برخود نہ پسندی بردیگران مپسند‘‘ تعالیٰ اﷲ عن ذالک علواً کبیرا۔ یہاں شاید مرزائی صاحبان یہ فرمائیں کہ تنقید تو لکھ دی لیکن اس کے مقابلہ کا کوئی قصیدہ نہ