ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
اس سے بھی بڑھ کر ہوا کہ کیا سب مسلمان آپ کو مانتے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ اگر کہتا ہوں کہ نہیں تو ایک غیر مسلم کے سامنے اپنی سبکی اور اہانت اس کو بھی جی گوارا نہ کرتا تھا مزاحا فرمایا گو سبکی نہ تھی دوسرے مقدمہ پر برا اثر پڑے گا کیونکہ میرا بیان کسی نہ کسی فریق کے تو ضرور مخالف ہو گا اس کو اس کہنے کی گنجائش ہو گی کہ وہ تو خود ہی کہہ گے کہ سب مسلمان نہیں مانتے سو ہم بھی نہیں مانتے اور اگر کہتا ہوں کہ سب مسلمان مانتے ہیں تو کانپور میں آئے دن ہندو مسلمان میں فساد ہوتے رہتے ہیں میرے اس اقرار کی بناء پر مجھ کو حکم کیا جا سکتا ہے کہ تم کو سب مانتے ہیں تم اس کا انتظام کرو میں اس کا ذمہ دار قرار دیا جاؤں گا میں نے جواب میں کہا کہ ماننے کے دو معنی ہیں ایک تصدیق کرنا اور ایک تسلیم کرنا تو تصدیق کے درجہ میں تو سب مسلمان مانتے ہیں یعنی کوئی مسلمان ہمارے بتلائے ہوئے مسئلہ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا اس سے مقدمہ پر بھی اچھا اثر ہوا اور تسلیم کے درجہ میں ہماری حکومت تو ہے نہیں صرف اعتقاد ہے اور اعتقاد کسی کو ہے اور کسی کو نہیں جو ہم کو معلوم نہیں پھر نفس مسئلہ پر بیان ہوا جب میں بیان دے کر اجلاس سے باہر آیا تو تمام بیر سٹر اور وکلاء جمع ہو گئے اور کہنے لگے کہ عجیب و غریب جواب ہوئے اور دوسرے سوال کے جواب میں تو ہم بھی چکر میں تھے واقعی یہ سوال خطرہ سے خالی نہ تھا مگر جواب بھی ایسا ہوا کہ ہماری سمجھ میں بھی نہ آیا تھا میں نے کہا کہ یہ سب عربی مدارس کی برکت ہے وہاں اس قسم کے احتمالات نکالا کرتے ہیں یہ بات انگریزی تعلیم میں تھوڑا ہی پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہ عربی ہی تعلیم کے اندر برکت ہے ۔ اور اس قسم کے احتمالات کا نکالنا عربی ہی طلبہ کا کام ہے ۔ انگریزی طلبہ قیامت تک بھی ایسے احتمالات نہیں نکال سکتے ۔ اور تجربہ سے معلوم ہوا کہ آدمی عربی درسی کتابیں سمجھ کر پڑھ لے پھر ان کے بعد آگے کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر آج کل عربی طلبہ بھی کتابیں سمجھ کر نہیں پڑھتے طوطے کی طرح رٹتے ہیں اس وجہ سے ان میں بھی سمجھ نہیں پیدا ہوتی ۔ بزرگوں نے جو درسی کتابیں انتخاب کی ہیں ان میں سب کچھ ہے مگر سمجھ کر پڑھ لینا شرط ہے ۔ (535) مسئلہ اوقاف کے بارے میں بیر سٹر اور وکلاء سے حضرت حکیم الامت کی تفصیلی گفتگو ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ سنا ہے اوقات کے متعلق حضرت والا کی خدمت میں