ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
کی وجہ سے میں نے یہ سوال کیا فرمایا کہ اب سچ یہی کہلوانا چاہتا تھا ۔ لیجئے صاحب مجھ کو وہمی بتلاتے ہیں اگر اس طرح کھود کرید نہ کریوں یہ کہاں قبضہ میں آ سکتے تھے ان لوگوں کی نبضیں میں ہی خوب پہچانتا ہوں اپنے بچھڑے کے دانت قصائی کو خوب معلوم ہوتے ہیں ۔ (533) انتقام کےلئے قدرے سخت ہونے کی ضرورت ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ فلاں مدرسہ کے منتظمین نے میرے مشورہ پر عمل نہیں کیا ورنہ تمام فساد ایک دم کافور ہو جاتا البتہ اس مشورہ پر عمل کرنے کےلئے قوت قلب کی ضرورت تھی ۔ کمزوری اور ڈھیلے پن سے انتظام نہیں ہو سکتا ۔ انتظام کےلئے سخت ہونے کی ضرورت ہے پھر سوال کرنے پر فرمایا کہ وہ مشورہ یہ تھا کہ مدرسہ کو ایک دم مقفل کر دیا جائے اور ملک میں اعلان کر دیا جائے کہ ان وجوہ سے مدرسہ کو بند کئے دیتے ہیں فضا خوش گوار ہونے پر کھول دیں گے اور سب مفسدوں کو نکال کر باہر کر دیا جاتا اور پھر جو داخل ہوتا وہ ایک تحریری معاہدہ کے ساتھ داخل کیا جاتا اگر ان شرائط کے خلاف کیا تو مدرسہ سے خارج کر دیے جاؤ گے اور یہی شرائط مدرسین کے ساتھ ہوتیں باقی اب تو مدرسہ کو اکھاڑہ بنا رکھا ہے یہاں پر مہتمم صاحب آئے تھے میں نے ان سے صاف کہہ دیا تھا کہ اب مدرسہ کی حالت یہ ہے کہ جیسے بے روح کا جسم ہوتا ہے اب اگر اس صورت میں مدرسہ کو ترقی بھی ہوئی تو یہ ترقی ایسی ہو گی جیسے مر جانے کے بعد لاش پھول جاتی ہے اور اندیشہ ہوتا ہے اس صورت میں کہ پھول کر جب پھٹے گی تو محلہ کو تو کیا بستی کو بھی مارے بدبو کے سڑائے گی اس پر مہتمم صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اب سنا جاتا ہے کہ طلبہ کا تو بالکل ہی طرز بدل گیا یہی پتہ نہیں چلتا دیکھنے سے کہ یہ علی گڑھ کالج ہے یا دینی مدرسہ ۔ جب اپنے بزرگوں کے طرز کو چھوڑ دیا تو پھر نور کہاں برکت کہاں یہ سب اس ہی کم بخت نیچریت کی نحوست ہے طلبہ کے لباس میں طرز معاشرت میں نیچریت کی جھلک پیدا ہو گئی ۔ منتظمین اساتذہ سب کے سب طلبہ سے مغلوب ہیں محض اس وجہ سے کہ اگر یہ نہ رہے تو ہماری مدرسی بھی جاتی رہے گی تو کیا ان صاحبوں کی نظر میں خود مدرسہ مقصود بالذات ہے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ مدرسہ مقصود بالذات نہیں اصل مقصود خدا کی رضا ہے خواہ مدرسہ رہے یا نہ رہے ۔ یہاں بفضلہ تعالی ان قواعد اور اصول کی رعایت کی جاتی ہے مگر ان ہی پر لوگ معترض ہیں اور اگر