ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
ان کا ہر کام خدا کے واسطے ہوتا ہے ان ہی کی محبت اور خوف کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ (322) بد فہمی کا زمانہ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بہت لوگ وہ ہیں جو مجھ سے خفا ہیں اس لئے کہ میں کوئی کام اور بات خفا میں نہیں رکھتا بہت کم ایسے ہیں جو خوش ہیں اور جو خفا ہیں وہ میرے اخلاق کو مذموم کہتے ہیں اور میں ان کے اخلاق کو مذموم کہتا ہوں ۔ زمانہ بد فہمی کا ہے رسم کا غلبہ ہے حقائق مٹ گئے اور یہ سب جاہل دکاندار پیروں کی بدولت لوگوں کے دماغ اور اخلاق خراب ہوئے مگر جو یہاں آ پھنستا ہے الحمد للہ اس کا تو دماغ درست ہو جات ہے ۔ 11 جمادی الثانی 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم پنجشنبہ (323) دیہاتی لوگوں کی بے حسی ایک دیہاتی شخص نے آ گر عرض کیا کہ مولوی جی ایک تعویذ دے دو یہ کہہ کر خاموش ہو گیا ۔ یہ نہیں کہا کہ کس چیز کا تعویذ ۔ حضرت والا نے کچھ سکوت کے بعد فرمایا کہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کہ پوری بات نہیں کہی عرض کیا کہ اجی تمہارے سامنے بولا نہیں جاتا ۔ فرمایا کہ یہ گاؤں کے لوگ بڑے استاد ہوتے ہیں کیا بات بنائی مگر ان سے کوئی یہ پوچھے کہ یہاں آ کر تو ادھوری بات کہتے ہیں مگر اسٹیشن پر جا کر یہ کبھی نہیں کہتے کہ بابو ٹکٹ دے دو بلکہ یہ کہیں گے کہ فلاں جگہ کا ٹکٹ دے دو ۔ بازار میں جا کر یہ نہ کہیں گے کہ سودا دے دو بلکہ یہ کہیں گے کہ نمک دے دو ۔ مرچ دے دو یہیں آ کر بھولنے کی جگہ ہے ملانے ہی تختہ مشق بنانے کو رہ گئے ہیں ۔ اب کہاں تک تاویل کروں آخر گھر سے جس کام کےلئے چلا تھا کہ فلاں کام کا تعویذ لانا ہے اس کا نام تو لینا چاہیے تھا بدوں بتلائے میں کس چیز کا تعویذ دیتا اپنی غلطی پر جو ندامت ہونی چاہیے وہ بھی نہیں ہوتی سمجھتے ہیں کہ ہم بے قصور ہیں یہی وجہ ہے کہ شرمندگی جس کا نام ہے وہ نہیں ہوتی اس سے معلوم ہوتا ہے اپنی غلطی کو ثقیل نہیں سمجھتے ۔ کیا اچھا عذر ہے کہ آپ کے سامنے بولا نہیں جاتا اور جتنا بولے ہو یہ کس طرح بولے یہ بھی نہ بولے ہوتے کچھ نہیں یہ سب بے فکری کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں نہ اپنی راحت کا خیال نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی قاعدہ بیلوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں نہ اپنی راحت کا خیال نہ