ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
عجیب خدا تعالی کی یہ رحمت ہوئی کہ باپ بھی ایسے ملے کہ انہوں نے شیخ کی طرح تربیت کی اور شیخ تو پھر شیخ ہی تھےدونوں کی برکت فطرت کے ساتھ مل کر ارواح ثلثہ ہو گئے والد صاحب کا معمول تھا کہ دعوت میں ہم کو نہ لے جاتے تھے الانا درا حالانکہ اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ بچوں کو ہمراہ لے جاتے ہیں ۔ والد صاحب فرماتے کہ یہ ٹھیک نہیں اس سے بچوں کو عادت ہو جاوے گی پھر انتظار ہونے لگے گا ۔ ایسے عاقل تھے ان کی باتیں ایسی تھیں جیسے شیوخ کی ہوتی ہیں ۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ باپ بھی ایسے ملے استاد بھی ایسے ہی شیخ بھی ایسے ہی یہ ان کا بڑا فضل اور رحمت ہے ۔ (285) ھدیہ لینے میں طبعی انقباض ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہدیہ لینے میں بعض اوقات ایک تو طبعی انقباض ہوتا ہے اس کا تو کچھ ذکر نہیں اور ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ بعض مرتبہ تجربہ کی بناء پر ہدیہ قبول کر کے پچتانا پڑتا ہے اس میں انتظام کی ضرورت ہے ۔ یہاں ہماری برادری میں ایک صاحب تھے جن کا حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے خادمی کا تعلق تھا اس بناء پر مجھ سے بھی محبت کرت تھے ان کے یہاں کوئی پھل آیا کوئی اچھا کھانا پکا میرے لئے بھیج دیتے تھے اور یہاں سے بھی جاتا رہتا تھا مگر کم و بیش کا تفاوت تھا ۔ اتفاق سے ایک فرائض کا مسئلہ انہوں نے مجھ سے پوچھا ۔ میں نے بتلا دیا وہ ان کے خلاف تھا اور اس میں ان کے فریق مخالف کا نفع تھا اس پر کہا کہ ہم اتنے زمانہ سے خدمت کرتے ہیں مگر جب ہمارے کام کا وقت آیا تو ہماری کچھ رعایت نہ کی ۔ دیکھئے کتنی رنج وہ بات ہے ۔ اس وجہ سے بعض ہدیہ میں شبہ ہو جاتا ہے کہ کہیں اس کا بھی یہی انجام نہ ہو ۔ اور ہدیہ دے کر کسی رعایت کی توقع تو نہایت ہی منکر و قبیح ہے ۔ مجھ کو تو یہ بھی پسند نہیں کہ ہدیہ دے کر دعاء کےلئے کہا جاوے اس لئے کہ ہدیہ تو محض طیب قلب سے اور تطیب قلب کےلئے ہوتا ہے ۔ اس میں اور اغراض کی یا دوسرے مصالح کی آمیزش کیسی ۔ اسی لے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اگر یہ شبہ ہو جائے کہ یہ شخص ہم کو غریب سمجھ کر ہدیہ دے رہا ہے لینے کو جی نہیں چاہتا ۔ ہم غریب ہی سہی مگر اس کو کیا حق ہے کہ وہ غریب سمجھ کر دے تو مولانا نے رفع حاجت کی مصلحت کی آمیزش کو پسند نہیں فرمایا اور ایک یہ بھی معمول تھا کہ سفر میں ہدیہ لینا پسند نہ فرماتے تھے بعض اوقات پہلے