ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
صدق کے معنی تو یہ ہیں کہ وہ سب لکھ دو مگر ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کمزوریوں کو بھی تاویل کر کے محاسن میں داخل کر کے لکھتے ہیں اور اس میں ایک راز ہے باریک وہ یہ کہ اگر ان کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ لوگ کہیں گے کہ ایسے ناکارہ پیر سے کیا تعلق رکھیں اس لئے ایسی چیزوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور سوانح میں اس طرح سے سب باتوں کا اظہار نہ کرنا تاریخی حیثیت سے تو موضوع سوانح کے خلاف ہی ہے مگر دینی حیثیت سے بھی جھوٹ ہے اور اچھا خاصہ دھوکا ہے اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک کپڑا ہے جو نہایت بوسیدہ ہے مگر اس کو دھو کر کلپ دے کر استری کر کے دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں خواہ ہاتھ لگاتے ہی پاش پاش ہو جائے البتہ دور سے زیارت کر لو ہاتھ لگانا جرم ہے سو اس کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ایسے امور کو چھپایا جاوے اگر ان کو ظاہر کر کے ان کا قابل اقتداء نہ ہونا بھی لکھ دیا جاوے تو حرج کیا ہے اس لئے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے افعال کا تو اتباع ہوتا ہے امتی کا فعل حجت نہیں ہوتا صرف فتوی حجت ہو سکتا ہے اور یہ بات مسلمات سے ہے اس لئے میں ایسی کتمان کو نا پسند کرتا ہوں ۔ (474) ہر چیز کو اپنی حد پر رکھنا واجب ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ یہ میرے مذاق کے خلاف ہے کہ کسی سے اتنی محبت کی جائے کہ جس کی وجہ سے حقائق پر پردہ پڑ جائے ۔ ہر چیز کو اپنی حد پر رکھنا واجب ہے اگر غلبہ حال سے کوئی بات ہو جاوے وہ اس قاعدہ سے مستثنی ہے مگر آج کل حدود کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کی جاتی سو یہ بہت ہی بڑی کوتاہی ہے ۔ (475) آجکل کی بزرگی ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل بزرگی بھی چھوئی موئی کا درخت ہو گئی اس کی حفاظت کےلئے لوگ ہزاروں تدابیر کرتے ہیں جس میں کلفت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے جس سے وہ بزرگی اچھی خاصی زندگی کو بے لطف بنانے والی چیز ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ آج کل کے رسمی پیروں کو دیکھا جاتا ہے کہ بے چارے معتقدین کے سامنے ایسے اہتمام سے رہتے ہیں کہ جس کا حدو حساب نہیں ۔ ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں اس بات سے معتقدین کا اعتقاد خراب نہ ہو جائے اس بات سے اعتقاد خراب نہ ہو جائے کیا یہ خدا پرستی ہے یہ تو کھلی