ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
2جمادی الثانی 1351ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم سہ شنبہ (116) مصافحہ میں بد عنوانیاں ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مجھ کو تو بدنام کرتے ہیں کہ بد خلق ہے سخت گیر ہے مگر آنے والوں کی حرکات کو نہیں دیکھتے کہ یہ آ کر کون سے خوش اخلاقی اور نرم گیری کا میرے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں ۔ کل بعد جماعت نماز مغرب ایک صاحب دور سے کھڑے ہوئے مجھ کو مصافحہ کےلئے ہاتھ دکھلا رہے تھے ۔ میں اس وقت سنتوں کی نیت باندھنے والا تھا اور وہ ان کی کمیٹی اور مشورہ کا وقت تھا اگر ایسا ہی ارزاں مصافحہ ہے تو تھوڑے دنوں میں لوگ کہیں عین نماز میں مصافہ نہ کرنے لگیں ۔ آخر کہاں تک صبر کروں اور کب تک تغیر نہ ہو ۔ ایک شخص نے دیوبند میں مسجد کے اندر جب کہ میں نماز پڑھانے کےلئے مصلے کے قریب پہنچ چکا تھا میرا ہاتھ پکڑ کر غالبا تیسری صف میں لے جا کر مصافحہ کر کے کہا کہ اب جاؤ ۔ میرے تو تمام اصول اور قواعد کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔ اس کو اصول سمجھ لیجے قاعدہ سمجھ لیجئے صرف یہی ایک قاعدہ ہے ۔ دوسرا کوئی قاعدہ وغیرہ کچھ نہیں تمام اصول اور قواعد اس ہی بات کےلئے ہیں اس قاعدہ کا حاصل یہ ہے بہشت آنجا کہ آزارے نباشد کسے رابا کسے کارے نباشد اس پر مجھ کو بدنام کرتے ہیں اور دوسرے لوگ خود اہل معاملہ سے یک طرفہ روایتیں سن کر حکم لگا دیتے ہیں یہ نہیں سمجھتے کہ یہ اہل معاملہ اپنی حرکات کیوں بیان کرنے لگے وہ تو میری ہی سختی اور مواخذہ کو بیان کرتے ہیں اس پر سننے والے ایک طرفہ بیان سن کر مجھ پر بد اخلاقی کا فتوی دے دیتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ اتنی ذراسی بات پر اس طرفہ بیان سن کر مجھ پر بد اخلاقی کا مثال ہے کہ ایک شخص نے چپکے سے دوسرے کے سوئی چھبو دی اس نے زور سے آہ کی تو کیا اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھالا تو نہیں مارا تلوار یا چھرا تو نہیں مارا پھر اس آہ واویلا کی کونسی ضرورت ہے ۔ معلوم بھی ہے کہ بعض اوقات بڑے ہتھیار کے مارنے سے وہ تکلیف نہیں ہوتی جو چھوٹے سے ہوتی ہے مثلا سوئی سے جس کا فورا ہی اثر محسوس ہوتا ہے اور سوئی تو پھر بڑی چیز ہے ۔ پھانس ہی کو دیکھ لو اس کا کیا وجود ہوتا ہے جس کا غور سے دیکھنے کے بعد بھی نظر آنا مشکل