ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
نقد صوفی نہ ہمہ صافی وبی غش باشد اے بسا خرقہ کہ مستوجب آتش باشد میاں کہاں کی تن آرائی اور بناؤ سنگار لئے پھرتے ہو ۔ وہاں تو فنا ہونا ٹنا اپنے کو پامال کر دینا عجز انکسار شکستگی یہ چیزیں اس بازار میں چلتی ہیں نہ یہ کہ تسبیح ہاتھ میں ہے ۔ زبان پر توبہ توبہ ہے اور دل کی یہ کیفیت ہے کہ جس کو فرماتے ہیں ۔ سبحہ برکف توبہ بر لب دل پر از ذوق گناہ معصیت راخندہ می آید بر استغفار ما تسبیح اگر لیں گے تو ایسی کہ میدان کار زار میں تلوار کی بھی ضرورت نہ ہو وہ تسبیح لٹھ کا کام دے سکے ۔ لباس ایسا پہنیں گے کہ دور سے معلوم ہو کہ کوئی بہت بڑے شاہ صاحب ہیں ۔ مگر یہ شاہ صاحب کیسی کہ جس کےلئے وردی کی ضرورت ہے میاں وردی میں کیا رکھا ہے دل وردی ہونا چاہیے جن کے قلوب میں حق تعالی کی محبت ہے اور اس طرف کا تعلق ہے ۔ ان کو بناؤ سنگار کی کہاں فرصت ۔ ان کی تو یہ حالت ہے ۔ نباشد اہل باطن درپنے آرایش ظاہر نبقاش احتیاجی نیست دیوار گلستان را الفریباں نباتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ با حسن خدا داد آمد معلوم بھی ہے کہ درویشی کہتے کس کو ہیں ۔ درویشی صرف خدا سے صحیح تعلق کا نام ہے اور آگے سب عبث اور فضول ہے ۔ طریق کی بھی یہی حقیقت ہے ۔ باقی یہ بناؤ سنگار اور تن آرائی یہ وہ شے ہے جس کی نسبت ایک دانشمند کا قول ہے ۔ عاقبت سازو ترا از دیں بری ایں تن ارائی و این تن پروری (82) ایک کم بخت عقل پرست کی حکایت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کے عقلاء عقل کو احکام میں بھی دخلیل بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عقل احکام کی کسوٹی ہے ایسے ہی عقل پرست کی ایک حکایت ہے کہ اپنی ماں سے منہ کالا کیا کرتا تھا ۔ اور یہ کہا کرتا تھا کہ جب میں سارا ہی اس کے اندر تھا تو اگر میرا ایک جزو اس کے اندر چلا گیا تو کیا حرج اور کیا گناہ ہے ۔ ایک شخص گوہ کھایا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ جب میرے ہی اندر تھا تو پھر اگر میرے اندر چلا گیا تو کیا حرج ہے ایسے ہی عقل پرستوں کی نسبت مولانا فرماتے ہیں ۔