ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
ظاہر ہے کہ نبوت ختم ہوئی ہے ولایت ختم نہیں ہوئی اور اگر لوازم بشریہ کا صدور ضعف اعتقاد کا سبب ہے تو سمجھ لو کہ اللہ والے فرشتے تو ہوتے نہیں کہ نہ کھائیں نہ پئیں نہ بولیں نہ ہنسیں افعال بشریہ تو سب میں کچھ نہ کچھ ہوتے ہی ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ ۔ سب میں بڑا الوالعزم اور محترم اور برگزیدہ طبقہ انبیاء علیہم السلام کا ہے کیا افعال بشریہ افعال فطریہ یہ ان سے صادر نہ ہوتے تھے مثلا کسی پر غصہ سے کسی پر نرمی سے خود حدیث شریف میں یہ دعاء ہے اللھم انی اتخذ عندک عھد الن تخلفنیہ فاتما انا بشر فایما مومن اذیتہ او شتمتہ او جلد تہ او لعنتہ فاجعلھا لہ صلوۃ و زکوۃ و قربتہ تقربہ بھا الیک اپنی اپنی شان کے موافق افعال بشریہ سب ہی میں ہوتے ہیں ۔ پھر اسی سلسلہ میں فرمایا کہ انا الحق کہنا جن کا واقعہ ہے یہ منصور مشہور ہو گئے ہیں حسن ابن منصور ہیں ۔ ایک وزیر ان کا کسی وجہ سے دشمن ہو گیا تھا اس نے علماء سے استفتاء کیا علماء نے سوال کے مطابق فتوی دے دیا ان پر بھی کوئی الزام نہیں ایک شخص صورت سوال لکھ کر حکم معلوم کرتا ہے علماء کا تو یہی کام ہے کہ وہ حکم شرعی ظاہر کر دیں اگر شبہ ہو کہ فتوی لکھنے والوں کی نسبت مولانا رومی فرماتے ہیں ۔ چوں قلم در دست غدارے فتاد لا جرم منصور بردارے فتاد جواب خود اسی شعر میں ہے غدران نہیں فرمایا کہ اہل فتوی مراد ہو سکیں غدار فرمایا ہے سو ایک شخص مراد ہو سکتا ہے ممکن ہے کہ وزیر مراد ہو اور چونکہ تنقید عقوبت کی اس کے حکم سے ہوئی اس لئے اس کے قلم کی طرف نسبت کی گئی تو فتوی میں وہ علماء کو بھی معذور سمجھتے ہیں اور اس ایک مستفتی کی وجہ سے واقعہ کا ہونا بیان فرماتے ہیں ۔ غرض اہل طریق سے بد گمانی نہایت خطرناک بات ہے یہی حاصل ہے اس تمام تقریر کا ۔ (443) تاویل اور توجیہ کا ایک معیار ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اگر تاویل کی جائے تو پھر کوئی بھی مواخذہ کے قابل نہیں رہتا تاویل میں تو بڑی وسعت ہے ۔ فرمایا کہ تاویل اور توجیہ کا بھی ایک معیار ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جس کی غالب حالت صلاحیت کی ہے دین کا مطیع ہے ۔ عقائد صحیح ہیں ایسے شخص سے اگر کوئی غلطی ہو جائے وہاں تاویل واجب ہے اور جہاں فسق و فجور کا غلبہ ہے وہاں تاویل