ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
طرح پر نہیں ہوئی ۔ جب کوئی واقعہ اس قسم کا پیش آتا ہے اس عزم کو بھول جاتا ہوں حالانکہ یاد رکھنے کا بھی علاج ہے جو دوسروں کو بتلایا بھی ہے اور بہت لوگوں نے بیان کیا کہ بڑا نفع ہوا وہ یہ ہے کہ اس کی یاد داشت مثل تعویذ کے لکھ کر اپنے گٹے پر باندھ لے اس صورت سے یاد آنا آسان ہے ۔ یہ ہے آسان طریقہ یاد کا مگر خود کبھی اس پر عمل نہیں کیا ۔ 22 جمادی الثانی 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم دو شنبہ (448) اصولی بات ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اب تو فلاں مدرسہ میں کیا فساد ہے اس سے بھی زبردست فساد ہو چکا ہے ہاں ایک نوعیت سے اگر اس کو سخت کہا جاوے تو ٹھیک ہے کہ وہ فساد بیرونی تھا اور یہ اندرونی ہے اس وقت اپنے سب لوگ ایک طرف تھے اور اہل قصبہ ایک طرف اب آپس میں اختلاف ہے وہ زمانہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا ۔ بناء اس فساد کی صرف یہ تھی کہ اہل قصبہ چاہتے تھے کہ ایک ممبر ہمارے میں سے ہو میرا اس زمانہ میں اتفاق سے وہاں جانا ہوا وہاں کی حالت معلوم ہونے پر میں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خط لکھا کہ اہل قصبہ صرف اپنا ایک ممبر مدرسہ میں رکھنا چاہتے ہیں سو اگر ایسا ہو جائے تو کیا حرج ہے اس لئے کہ کثرت تو پھر بھی حضرت ہی کے خدام کی رہے گی ایک ادمی کر کیا سکتا ہے اور اگر حضرت نے اجازت نہ فرمائی تو مدرسہ بظاہر نہایت خطرہ میں ہے شاید بقا کی بھی کوئی صورت نہ رہے ۔ حضرت نے مجھ کو جواب میں لکھا کہ نا اہل کو کام سپرد کرنا یہ خیانت ہے ایسا کرنے سے ہم پر مواخذہ ہو گا کہ کام نا اہل کے کیوں سپرد کیا گیا اصل مقصود خدا کی رضا ہے مدرسہ مقصود نہیں ۔ اور رہا یہ کہ مدرسہ باقی نہ رہے گا اس سے ہم پر مواخذہ نہ ہو گا یہ ان سے مواخذہ ہو گا جن کی حرکات سے مدرسہ کو نقصان پہنچے گا ۔ اس پر فرمایا کہ جتنا بھی کام ہوا اصول صحیحہ کے تابع ہو حدود شرعیہ کے ماتحت رہ کر ہو مقصود خدا کی رضا ہے مسلمان کے ہر کام کا مقصود خدا کی رضاء ہونا چاہیے اور خوشنودی پیش نظر رہنا چاہیے مدرسہ رہے یا جائے چاہے مدرسہ ملک میں بد نام ہو یا نیک نام چندہ بند ہو یا جاری رہے طلباء زیادہ ہوں یا کم ۔ غرض یہ کہ کچھ بھی ہوا اصول صحیحہ کے تابع رہنا چاہیے اور یہ میری رائے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمانے کے مطابق ہے اپنی تنہاء رائے نہیں خواہ یہ رائے بھی کسی کو پسند نہ ہو لیکن یہ