ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
ہیں ۔ اخیر میں مشورہ ٹھہرا کہ چلو امتحان کریں ۔ جنگل میں پہنچے ان بزرگ کے پاس ادھر ادھر کی دو چار باتیں کر کے منکر نے ان بزرگ سے کہا کہ آپ جنگل مں تنہا رہتے ہیں ۔ جہاں پھاڑ کھانے والے جانور شیر بھیڑئیے رہتے ہیں آپ کو تو ڈر معلوم ہوتا ہو گا تو وہ بزرگ جواب میں کہتے ہیں کہ میں شیر بھیڑیوں سے تو کیا ڈرتا ۔ میں خدا سے تو ڈرتا ہی نہیں ایسے خواص کو دیکھ کر شیخ زادوں کی قوم کےلئے فطرت کی صفت مشہور ہے ۔ ایسی باتیں ضرب المثل ہو گئی ہیں ۔ ان کے پیچھے پڑنا اور اپنی قوم سے نفی کرنا غیر مفید ہے ۔ قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتیؒ کی ایک حکایت ہے کہ باندہ میں مدرس تھے ایک سرحدی طالب علم ان سے پڑھتا تھا ایک روز وہ قاری صاحب کے پاس ایک دری لایا اور عرض کیا کہ ہم آپ کے واسطے دری لایا ہے ۔ قاری صاحب نے یہ سمجھ کر کہ طالب علم ہے غریب پردیسی ہے فرمایا کہ تم طالب علم آدمی ہو اپنے کام میں لاؤ ۔ میرے پاس بسترہ کافی ہے ۔ واپس لے گیا ۔ دوسرے روز پھر لایا قاری صاحب نے عذر کر دیا واپس لے گیا ۔ پھر تیسرے روز لایا قاری صاحب نے اصرار کی وجہ سے اور یہ سمجھ کر کہ اس کی دل آزاری ہو گی قبول فرما لی تو وہ سرحدی طالب علم کہتا ہے کہ شکر ہے آج دو مسلمانوں کی جان بچ گئی ورنہ آج ہم ایک چھرا لایا تھا ایک ہاتھ تمہارے مارتا اور ایک اپنے ۔ دونوں ختم ہو جاتے ۔ مولانا محمد اسحاق صاحب کی ایک حکایت ہے کہ ایک سرحدی طالب علم آپ کے پاس پڑھتا تھا مولانا بہت ہی متواضع تھے ایک بار پیاس لگی صراحی قریب رکھی تھی خود پانی لے کر پی لیا ۔ اس نے باوجود اس کے کہ شاگرد تھا مولانا کا ہاتھ مروڑ دیا اور کہا کہ ہم سے پانی کیوں نہیں مانگا ۔ ہم کس واسطے ہے ہم خدمت کے واسطے ہے ۔ بتلائیے جو باتیں طبعی اور فطری ہیں ان کا کیا علاج ہے ۔ یعنی قومیں اپنے خواص سن کر خواہ مخواہ چڑتے ہیں اور ان خواص کے نفی کرنے کےلئے جلسے کرنا کمیٹیاں کرنا رزولیوشن پاس کرنا اپنے کو زیادہ ظاہر کرنا ہے ۔ 29 جمادی الاولی 1351 ھ مجلس بعد نماز ظہر یوم شنبہ (51) اصلاح کےلئے مرید ہونا شرط نہیں فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں عرصہ سے اپنی اصلاح کی فکر میں تھا آج اللہ تعالی نے دل میں یہ بات ڈالی کہ جب تک فلاں شخص سے ( اس سے مراد میں ہوں ) مرید نہ