ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
نہ کی جاوے گی ۔ اور مستحقین تاویل کی شان میں اگر تاویل بھی نہ کی جاوے تب بھی کف لسان واجب ہے گو ان کا معتقد ہونا بھی واجب نہیں ۔ جیسے شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ ہیں یا بایزید رحمۃ اللہ علیہ ہیں ان کا معتقد ہونا واجب نہیں ۔ مگر گستاخی بھی محل خطر ہے اور خطر بھی ایسا جس کو امام غزالی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اہل طریق سے بد گمانی کرنے سے اندیشہ سوء خاتمہ کا ہے اور اگر کچھ نہ کہو تو کچھ اندیشہ نہیں تو بہتر صورت یہی ہے اور احتیاط اسی میں ہے کہ کچھ نہ کہو گو یہ بھی ضروری نہیں کہ معتقد ہو جاؤ بس نہ معتقد ہو نہ کچھ بے جا کلمہ کہو اسی میں خیر ہے ۔ اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کوئی شخص امیر ہو اس کے امیر ہونے کا کوئی معتقد نہ ہونا جرم ہ تھا جھوٹ بولنا جرم ہے اسی طرح اگر کوئی ان حضرات کا معتقد نہ ہو کوئی جرم نہیں لیکن برا بھلا کہنا یہ بڑی خطرناک بات ہے ہمارے بزرگوں کا تو مذہب یہ ہے کہ وہ افراط و تفریط کو پسند نہ فرماتے تھے بجز منصوص علیہ حضرات کے کسی خاص بزرگ کا نہ معتقد ہونا فرض ہے اور نہ برا بھلا کہنا جائز ۔ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ارشاد اس باب میں یاد آیا فرمایا تھا الغائب حجۃ شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ پر بعض خشک علماء بڑا ہی سب و شتم کر تے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ برا بھلا کہا جائے ۔ فصوص کو نہ مانیئے فصوص کا ماننا فرض نہیں مگر نصوص کا ماننا تو فرض ہے اور نصوص کا حکم ہے کہ بدوں دلیل شرعی یقینی کے کسی کو برا بھلا کہنا جائز نہیں اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ مصلح اور مفتی میں سب چیزیں ہونا چاہیں ۔ قرآن بھی حدیث بھی فقہ بھی تصوف بھی پھر انشاء اللہ تعالی ایسا شخص حدود پر رہ سکتا ہے جامع نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو ہی جاتی ہے ۔ محقق اور جامع موقع اور محل کو دیکھتا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ فقیہ بھی ہو صوفی بھی ہو محدث بھی ہو مفسر بھی ہو ۔ (444) اصولی بات ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ان غالی اور جاہل صوفیوں نے تصوف کو بد نام کیا یہ لوگ اپنی بے احتیاطیوں سے امت میں کفر پھیلاتے ہیں ۔ ایک اسلامی ریاست میں مشائخ نے فصوص کو داخل نصاب کر رکھا ہے ۔ اس کا جو نتیجہ ہو گا ظاہر ہے اس لئے کہ پڑھنے