ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
(352) اندورنی کمال کی عجیب مثال ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ کسی میں کوئی بات خدا داد ایسی ہوتی ہے کہ وہ کسی کے بنانے سے نہیں بن سکتی گو کسی عارض کی وجہ سے اس میں کسی قسم کی بظاہر کمی معلوم ہوتی ہو مگر عارض کے ارتفاع ہی سے اصلی چیز نمایاں ہو جاتی ہے ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص حسین ہے مگر اس نے یا اور کسی نے اس کے چہرہ پر سیاہی مل دی اور ایک بد شکل ہے اس نے پوڈر مل لیا کیا اس ک حسن میں یا دوسرے کے قبح میں کوئی فرق آ گیا جس وقت وہ سیاہی دھل جائے گی وہ ویسا ہی حسین ہے اور جس وقت دوسرے کا پوڈر دھل جائے گا اس کی قلعی کھل جائے گی ۔ دوسری مثال ایک عورت نہایت حسین ایک عورت بد شکل مگر اس بد شکل میں ایسی ادا ہے کہ خاوند کو وہ محبوب ہے تو اس کی وجہ سے اس عورت کا حسن اس کی نظر میں خاک اور گرد ہے اسی طرح اللہ تعالی کے بعض بندوں میں کوئی ایسی خدا داد صفت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے سامنے دوسروں کے کمالات گرد ہوتے ہیں اس لئے کسی کی کسی کمی کو دیکھ کر اس کو ناقص اور اپنے کو کامل سمجھنا غلطی ہے ممکن ہے اس کا نقص عارضی ہو اسی طرح تمہارا کمال اس عارض کے ارتفاع کے بعد عکس کا ظہور ہو جائے گا تو حتمی فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ (353) اللہ تعالی کی شان میں لفظ بے پرواہ کا استعمال گستاخی ہے فرمایا کہ مجالس تعزیت میں یہ بات دیکھی ہو گی کہ بعض لوگ جو جوان مر جاتے ہیں اس کی تعزیت میں عام طور پر اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہائے جوان مر گیا چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے ۔ ابھی عمر ہی کیا تھی ۔ ہاجی اللہ کی ذات بڑی بے پرواہ ہے سو یہ لفظ بے پرواہ کا نہایت تقیل ہے یہاں غنی کا ترجمہ نہیں کہ یہ صفت تو منصوص ہے بلکہ یہ بے انتظام کے معنی میں ہے ۔ یہ جملہ بڑے بڑے ثقہ لوگوں کی زبان پر ہے واللہ الغنی و انتم الفقراء کے معنی تو یہ یرضی لعبادہ الکفر اور من جاھد فانما یجاھد لنفسہ ان اللہ لغنی عن العالمین میں یہ معنی ہیں کہ کسی کی کفر و طاعت سے نہ ان کا کوئی ضرر ہے نہ نفع مگر ان اہل تعزیت کی یہ مراد ہرگز نہیں ان کلمات سے سخت احتیاط چاہیے ممکن بلکہ امید ہے کہ جہل کے سبب معافی ہو جاوے لیکن اگر مواخذہ ہونے لگے تو استحقاق ہے ۔ عارفین پر تو