ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
جس عقیدہ کی طرف کثرت تھی کیونکہ اس وقت اہل باطل کم تھے اہل خیر زیادہ تھے اس وقت کسی طرف کثرت ہونا علت تھی اس کے حق ہونے کی ۔ اور اس وقت کا سواد اعظم مراد نہیں اور وہ بھی عقائد میں کثرت مراد ہے آراء میں کثرت مراد نہیں جیسا اس وقت جمہوریت کو قبلہ و کعبہ بنا رکھا ہے اور شادر ھم فی الامر سے استدلال کیا جاتا ہے اور اس کے فیصلہ کے لئے بڑی بات یہ ہے کہ صحابہ کا یہی عمل تھا ان سے زیادہ قرآن کو کون سمجھ سکتا ہے ۔ دیکھئے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مشورہ کیا مالعین زکوۃ سے قتال کرنے میں تمام صحابہ ایک طرف تھے اور تنہا حضرت صدیق اکبر ایک طرف تھے پھر دیکھو کیا عمل ہوا اور جو لوگ جمہوریت کے مدعی ہیں اخیر میں وہ بھی شخصیت ہی سے کام لیتے ہیں چنانچہ یہ معلوم ہوا کہ اختلاف کے وقت ویسرائے کو اختیار ہوتا ہے کہ جس شق پر چاہے عمل کرے ۔ اسی طرح بادشاہ کو اختیار ہے کہ جب چاہے پارلیمنٹ کو توڑ دے ۔ غرض سب کو اسی طرف آنا پڑا آخر میں شخصیت ہی رہ جاتی ہے خود ہی جمہوریت والے کثرت والے چاہتے ہیں کہ ہماری شخصیت رہے یہ قدرتی بات ہے ۔ قانون قدرت کو کون مٹا سکتا ہے پھر اگر کثرت بھی معتبر ہوتی تو مطلع کثرت تو نہیں اہل کثرت ہوتی اور وہ بھی جب خلو ذہن کی حالت میں ہو یہاں دونوں باتیں نہیں ۔ اب یہ ممبری ہی کا قصہ ہے دوسروں کو گھر سے بہکا کر لاتے ہیں کہ میں یہ کہوں گا تم تائید کرنا یہ تو خلو ذہن کی حالت ہے اور اہلیت کی یہ کیفیت ہے کہ ایک شخص کانپور میں تھے وہ ایک مالدار شخص کو بنا کر لائے کہ جو میں کہوں گا اس کی تائید کرنا یہ کہا کہ میں تائید کرتا ہوں جب وقت آیا تو کہتا ہے کہ میں تردید کرتا ہوں پھر انہوں نے اشارہ کیا تو کہتا ہے کہ میں تارید کرتا ہوں پھر اشارہ کیا تو کہا میں تاکید کرتا ہوں خیر غنیمت سے کچھ تو قریب آئے یہ لیاقت کی حالت ہے ۔ (417) ہر کام طریقہ سے ہوتا ہے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ اصول صحیحہ پر اگر عمل ہو مخلوق کو بڑی راحت میسر ہو اور وہ اصول اور قواعد ہی کیا ہیں صرف یہ چاہتا ہوں کہ کام سب کے ہو جائیں اور تکلیف کسی کو نہ ہو ۔ خدمت سے انکار نہیں مگر غلام نہیں بنا جاتا ہر کام طریقہ سے ہوتا ہے لوگ چاہتے ہیں کہ جس طرح اور جس وقت ہم چاہیں کام ہو جائے سو یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ (418) بد فہمی غیر اختیاری چیز ہے