ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
یہ فرض نہیں ۔ رہا درویش ہونا نہ ہونا سو ہم تو طالب علم ہیں اگر طالب علمی کا نام درویشی ہے تب تو ہم درویش ہیں اور اگر اس کے علاوہ اور کسی چیز کا نام درویشی ہے تو ہم درویش نہیں ۔ تمام دنیا درویشوں سے بھری پڑی ہے وہاں جائیں اور ایک یہ بات بتلاؤ کہ تم اپنی اصلاح کے لئے آئی ہو یا ہماری اصلاح کےلئے ۔ کیا سی ۔ آئی ۔ ڈی ۔ کا کام بھی تمہارے سپرد ہے کہ چیزوں کا زائچہ لیتی ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قلب غیراللہ میں مشغول ہے سو اس کی اصلاح سب سے پہلے ضروری ہے ۔ اس پر بڑی معذرت کی معافی چاہی ۔ میں نے کہا کہ معافی سے کیا انکار ہے مگر اس طرح اصلاح نہیں ہوا کرتی کہ وہ ہمارے عیب نکالیں ہم ان کے عیب نکالیں یہ تو وہی مثال ہو جاوے گی ۔ من تراپا جی بگویم تو مراپا جی بگو ۔ میں یہ کہہ کر چلا آیا ۔ اب پھر مجھ کو بلا کر بھیجا ہے ۔ میں نے چلتے وقت گھر میں کہہ دیا تھا کہ اب تم ان کو کچھ مت کہنا ۔ بحمد اللہ میں تو عین مواخذہ کے وقت اور عین غصہ کی حالت میں بھی حدود کی رعایت رکھتا ہوں اور جو کچھ کہتا ہوں مصالح پر نظر کر کے قصد سے کہتا ہوں کوئی اضطراری کیفیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ اختیاری کیفیت ہوتی ہے ۔ آنے والے کی مصلحت پیش نظر رہتی ہے اب بلایا ہے اگر پچاس مرتبہ بھی بلاویں جانے کو تیار ہوں آخر مہمان ہیں مہمان کا حق ہے پھر اللہ کا نام معلوم کرنے کےلئے ان کا راستہ پوچھنے آئی ہیں ۔ مگر کیا کروں کام تو کام ہی کے طریقہ سے ہوتا ہے اس لئے غلطی پر متنبہ کرنا پڑتا ہے سو یہیں سے اصلاح شروع ہو گئی مگر ان مصالح کو تو کوئی دیکھتا نہیں ۔ اعتراض شروع کر دیتے ہیں ۔ ایک اور قصہ ہے ۔ ایک عورت مکان پر آ کر ٹھہریں ۔ چونکہ بڑے گھر میں سے اہل حاجت اقارب و اجانب کی خدمت کرنے میں بہت زیادہ خرچ کرتی ہیں حتی کہ حدود سے بھی آگے بڑھ جاتی ہیں اور اسی کی بدولت اکثر زیور بکتا بنتا رہتا ہے ۔ قرض دار ہو جاتی ہیں ۔ غرض اس سلسلہ میں وہ زیور بیچ رہی تھیں ان مہمان بی بی نے پانچ روپیہ دوسرے خریدار سے زائد لگائے لالچ میں آ کر ان کو دے دیا ۔ مجھ کو اس کی اطلاع ہوئی ۔ میں نے واپس کرایا کہ انہوں نے لحاظ کی وجہ سے قیمت زائد لگائی ہے ۔ لہذا خریدار کی رضا مندی سے زیور واپس لو اور اس کا روپیہ اس کو دو ۔ سو میں تو یہاں تک رعایتیں کرتا ہوں اس پر اگر آنے والے میرے ساتھ ایسا برتاؤں کریں تو ناگواری ضروری ہو گی ۔ (60) حضرت حکیم الامت کے ہاں صرف تعلیم انسانیت دی جاتی تھی