ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
تھا کہ ایک شخص ہے وہ تمام نیک کام کرتا ہے صرف رسالت کو تسلیم نہیں کرتا اس کے متعلق کیا حکم ہے حضرت نے جواب میں لکھا تھا کہ قرآن پاک میں ہے محمد رسول اللہ تو یہ شخص خدا کو نعوذ باللہ جھوٹا سمجھتا ہے اس لئے کافر ہے اور کوئی عمل اور نیکی مقبول نہیں ۔ (309) تصدیق کے دو درجے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ ایک صاحب لکھے پڑھے اس خبط میں مبتلا تھے کہ گاندہی موحد تو ہے ہی باقی رسالت تو اس کے متعلق سوال کرنے پر اس نے یہ کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو کیا گاندہی کو مسلمان کہا جاوے گا ۔ میں نے کہا کہ تم کس خبط میں پڑے وہ یہی تو کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں یعنی تصدیق کرتا ہوں ۔ سو تصدیق کے دو درجے ہیں ۔ ایک اختیاری اور ایک اضطراری سو ایمان ماموربہ ہے اور ماموربہ اختیاری ہوتا ہے ۔ اضطراری میں اکتساب و اختیار کا دخل نہیں اس لئے وہ ایمان نہیں بلکہ جو تصدیق اختیاری ہو وہ ایمان ہے اور اختیاری یہ ہے کہ اس پراپنے جی کو جمانا سمجھانا ۔ غرض ایمان وہ تصدیق ہے جو اختیاری ہو اور گاندھی کو تصدیق اضطراری حاصل ہے ورنہ نماز پڑھا کرے یہ نہ سہی مگر کم از کم اس کو فرض ہی سمجھے اس کو ایک دوسرے سہل عنوان سے سمجھو کہ ایک ہے جاننا اور ایک ہے ماننا جیسے قیصرولیم جارج کو بادشاہ جانتا ہے اور جارج قیصرولیم کو بادشاہ جانتا ہے مگر ایک کو ایک مانتا نہیں دونوں کی فوجیں لڑتی ہیں تو جیسے یہاں فقط جاننے سے اطاعت کا حکم نہیں کیا جا سکتا ایسے ہی گاندھی جانتا ہے مانتا نہیں اس سے ایمان کیسے ہو سکتا ہے ۔ اب میں اس سے آگے کہتا ہوں کہ ماننے کے بھی دو طریقے ہیں ایک یہ کہ حکیمانہ طریق پر کسی بات کو مانتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ حاکمانہ طریق پر مانتا ہے یعنی جس کی مانتا ہے اس کو اپنے اوپر حاکم مانتا ہے ۔ سو بعض لوگ حکیمانہ طریق پر اسلام کی بعض باتوں کو اچھا سمجھتے ہیں مگر وہ بھی ایمان نہیں ۔ ایمان کےلئے اس کی ضرورت ہے کہ حا کمانہ طریق پر مانے ۔ ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا تھا کہ ایک یورپین عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم کو نماز اچھی اور پیاری معلوم ہوتی ہے مگر اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے پر حاکم نہیں سمجھتی تو اس سے ایمان اور اسلام تھوڑا ہی ثابت ہو سکتا ہے یہ تو ایک حکیمانہ طرز پر تسلیم کرنا ہے جو ایمان کےلئے کافی نہیں حاصل یہ کہ ہر ماننا اسلام نہیں ۔