ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
اس شخص نے کہا کہ بھائی تم تو ایسی ہی باتیں کرتے ہو ۔ فرمایا کہ میاں عجیب ماجرا تو یہی ہو سکتا ہے کہ کھاؤ کچھ ہو کچھ ۔ بس آج کل کی شاعری اکثر بوجہ فقدان لیاقت اس سے زیادہ نہیں خواہ مخواہ فضول اور عبث لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں ۔ حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ اپنے استاذ الاستاذ بزرگ کا قول نقل فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو دین کا بنانا ہو تو شاعر کے سپرد کرو ۔ میں نے عرض کیا کہ چوتھی ایک صورت اور رہ گئی کہ اگر دونوں کا بنانا ہو فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا واقعی حضرت مولانا نے صحیح فرمایا اسی کو فرمایا گیا ہے ۔ ہم خدا ہی وہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال ست وجنون (138) فقہاء کی عظیم خدمات ایک سلسلہ گفتگو میں ایک فقہی مسئلہ پر ایک مولوی صاحب کو آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ سب سے زیادہ مشکل چیز فقہ کو سمجھتا ہوں اور لوگوں کو اکثر اسی پر دلیر پاتا ہوں بہت سوچ سمجھ کر مسئلہ بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ فقہاء نے تو کوئی چیز نہیں چھوڑی ۔ فقہاء ہی کی اس قدر نظر ہے ۔ احکام پر بھی ۔ علل احکام پر بھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا کی طرف سے ان حضرات کو الہام ہوتا تھا جس سے ایسی دین کی خدمت کی ہے حق تعالی ان کو جزاء خیر عطاء فرمائیں ۔ اگر فقہا کی ذات دنیا میں نہ ہوتی تو عالم میں ایک اندھیرا ہوتا ۔ دین کے ہر مسئلہ کو روشن اور واضح کر دیا ۔ اگر فہم سلیم اور عقل کامل ہو تو کوئی دقیقہ باقی نہیں رہا ۔ باقی بد فہموں اور بد عقلوں کا تو ذکر ہی کیا ہے ۔ (139) حضرت شیخ الہند در اصل شیخ العلم تھے ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل تو یہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہو جائیں سب کچھ کھلائے جانے لگیں ۔ اور کام کے نام صفر ۔ لمبے لمبے چوڑے چوڑے القاب ہوں جیسے کہ آض کل ۔ امیر الشریعت ۔ امیر الملت ۔ شیخ الحدیث ۔ شیخ التفسیر ۔ امام الہند ۔ ہمارے بزرگ بحمداللہ سب کچھ تھے مگر ان کےلئے کبھی مولوی یا مولانا سے آگے کوئی القاب ہی استعمال نہیں کیا گیا ۔ حضرت مولانا دیوبندی رحمتہ اللہ علیہ کےلئے جو شیخ الہند کا خطاب مشہور کیا گیا اس کی نسبت میں کہا کرتا ہوں کہ افسوس شیخ العالم کو شیخ الہند کہہ دیا ۔ یہ حضرت مولانا کی اچھی قدر کی ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا کو ان لوگوں نے پہچانا ہی نہیں ۔ اور اس