ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
نہیں ممکن ہے بہت ہی دیر لگ جاوے سو اس کے پیچھے پڑ کر اصل مقصود سے محروم رہنا بجز بے عقلی کے کیا ہے ۔ (481) طلباء کو عہدہ امارت وغیرہ دینے کی مذمت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل کوئی کام ہو کام کرنے والوں میں نہ اس کے اصول ہیں نہ حدود نہ اہل کو دیکھا جاتا ہے نہ نا اہل کو بڑی ہی گڑ بڑ ہو رہی ہے حالانکہ کام کرنے سے قبل ہمیشہ اس کے نتائج پر غور کرنا اور اصول صحیحہ کے تابع ہو کر کام کرنا ضروری ہے ۔ ایک مدرسہ سے ایک طالب علم کا خط آیا تھا لکھا تھا کہ ایک جماعت کی طرف سے میرے سپرد شعبہ تبلیغ کی امارت ہے ، جمعرات کے روز مبلغین کو جمع کر کے تبلیغ کےلئے بھیجنا میرے ذمہ ہے اور بعض مرتبہ بعض مقام پر میں خود بھی تبلیغ کےلئے جاتا ہوں اس مرتبہ ایک طالب علم سے کچھ غلطی ہو گئی میں نے اس کی غلطی پر تنبیہہ کی اس نے کہا کہ مجھ کو سزا دیجئے میں نے اس کے کان پکڑوا دیے اس کے بعد مجھ کو بے حد ندامت ہوئی اور اس طالب علم سے معافی چاہی ۔ مجھ کو ایسا کرنا چاہیے تھا یا نہیں اور یہ اچھا ہوا یا برا ۔ آج پھر خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں اسی وقت سے امارت سے مستعفی ہو گیا ہوں اور اپنی اس حرکت اور بے وقوفی پر نادم ہوں ۔ میں نے لکھا ہے کہ امارت ہی کو چھوڑا ہے یا تبلیغ کے کام کو بھی چھوڑ دیا ۔ کبھی یہ سمجھے ہوں کہ امیر کے ذمہ تو دین کا کام ہے اور غریب کے ذمہ دین کا کام نہیں ۔ جب امارت ہی نہ رہی تو دین کا کام میرے ذمہ نہیں ۔ پھر فرمایا کہ طلبہ کو ایسے عہدے دینا نہایت برا قاعدہ ہے اس میں چند مفاسد ہیں ۔ ایک تو یہ کہ مثلا انہوں نے سزا دی یہ بھی طالب علم وہ بھی طالب علم آپس میں اندیشہ ہے عداوت کے پیدا ہو جانے کا ۔ دوسرے یہ کہ جس کو امیر بنایا وہ خراب ہو گا اس میں کبر پیدا ہو گا تیسرے یہ کہ اگر کسی وجہ سے اس کو عہدے سے معزول کیا گیا اس کو اساتذہ پر بد گمانی ہو گی یا یہ کہ اساتذہ کو اپنے سے بد گمان سمجھے گا ۔ غرض شیطان کا شیرہ ہے جس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور اس میں بہت سی جزئیات ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے ان وجوہ سے ہرگز ہرگز طلبہ کو اس قسم کے عہدے یا اعزازی و امتیازی کام نہ سپرد کرنے چاہیں ایسے کام اساتذہ کے ہاتھ میں ہونے چاہیں اگر اساتذہ کسی کی غلطی یا کوتاہی پر کوئی سزا وغیرہ بھی دیں تو چونکہ تلامذہ کے قلوب میں اساتذہ کی پہلے سے وقعت اور عظمت ہوتی ہے اس لئے زیادہ اندیشہ