ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
احدکم من ترضون دینہ و خلقہ فزوجوہ ان لا تفعلو تکن فتنتہ فی الارض و فساد عریض نقل کر کے لکھتے ہیں ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو مت دیکھو کہ بہت حسین بھی ہے یا نہیں زیادہ مال بھی ہے یا نہیں ۔ یہ نہیں کہ کفائت بھی کوئی چیز نہیں یہ تو فطری امر ہے ۔ شریعت کبھی ایسی چیز کو مہمل نہیں چھوڑ سکتی اس میں رد و قدح کرنا قتل سے بھی زیادہ اشد ہے اور سب آدمی اپنے اپنے درجات پر ہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عورتوں کو منع کر دوں گا کہ وہ غیر کفو میں نکاح نہ کریں اھ یہ مضمون تحت عنوان الخطبتہ وما لتعلق بہا مذکور ہے اقوال لیس فی ھذا الحدیث سے شروع ھو کر سیا لصلاح الدین پر ختم ہوا اور عنوان مذکور کے بعد متصل ذکر العورات کے تحت میں کفائت کے اعتبار نہ کرنے کو قضاء شہوت خلاف سنت راشدہ فرمایا ہے اور فقہاء نے بھی دلائل نقلیہ کے بعد اعتبار کفائت کی حکمت میں اس کی تصریح کی ہے جیسا ہدایہ میں ہے انتظام المصالح بین المتکافین عادۃ لان الشریفۃ تاہی ان تکون مستفرشۃ للخسیس بالخصوص کفائت فی النسب میں اس کی تصریح ہے لانہ یقع بہ التفاخر (385) ہر مساوات محمود نہیں ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت شرفاء کے غلو کو بھی غالبا اس میں دخل ہے کہ وہ بعض قوموں کی تحقیر کرتے ہیں اس لئے وہ دوسری معزز قوموں میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔ فرمایا کے پہلے تو ایسا ہوتا ہو گا مگر اب تو مستحق ادب کا بے حد ادب کرتے ہیں کسی قوم کا کوئی عالم ہو اس کو سرہانا دیتے ہیں اب تو تہذیب کا اثر غالب ہے کوئی بے حرمتی یا تحقیر نہیں کرتا یہ مشاہد ہے ۔ باقی یہ فرق کہ باپ کو بیٹا ایسے لہجے سے سلام کرے کہ سلام کے لہجے سے معلوم ہو جائے کہ سلام کرنے والا بیٹا ہے اس میں کونسا حرج ہے اور کون سی تحقیر کی بات ہے س اگر دوسری قومیں عالی خاندان والوں کے ساتھ اس فرق کی رعایت رکھیں سو یہ تو تہذیب کی بات ہے مگر اب تو مساواۃ کا ہیضہ ہو گیا ہے سو اگر مساوات کے یہ معنی ہیں جو آج کل بیان کئے جاتے ہیں تو یہ خود صحیح نہیں اس لئے کہ آخر نوکر اور آقا میں تو فرق ہوتا ہی ہے حاکم اور محکوم میں فرق ہے ۔ خاوند اور بیوی میں فرق ہے ۔ باپ اور بیٹے میں فرق ہے ۔ اس کو خود معترض