ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جو لوگ تکلف کی چیزیں ہدیہ میں لاتے ہیں ان سے اور خصوصا اونی کپڑوں کے لانے سے مجھے بڑی کلفت ہوتی ہے اس لئے کہ اکثر ایسی چیزیں بلا ضرورت کے آ جاتی ہیں اور اونی کپڑا صاف دل شکنی کی وجہ سے قبول کر لیتا ہوں مگر جی خوش نہیں ہوتا کیونکہ ان کی حفاظت کا خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے جو ایک اچھا خاصا مستقل مشغلہ ہے ۔ پھر کرم لگ جانے پر اور رنج ہوتا ہے ۔ یہ بھی ہدایا کے باپ میں ایک رسم پر عمل ہے ورنہ اس کی قرین مصلحت دو صورتیں ہیں افضل اور بہتر صورت تو یہ ہے کہ نقد دے دے اس لئے کہ جو ضرورت ہو گی اس میں صرف کر لیا جاوے گا اور اگر چیز ہی دینا ہو تو مہدی الیہ سے معلوم کر لے یہ دوسرا درجہ ہے مگر رسم کے غلبہ سے کسی بات میں بھی اصول اور حدود کی رعایت نہیں رہی ۔ ہدیہ کی اصل مقصود دوسرے کا جی خوش کرنا ہے ۔ مگر آج کل اپنا جی خوش کرنے کو مقصود سمجھتے ہیں ۔ اس لئے میں اس کو بھی ایک رسم مروج سمجھتا ہوں ۔ (342) فکر بھی عجیب چیز ہے فرمایا کہ ایک صاحب کا خط آیا ہے ۔ یہ کچھ روز یہاں پر قیام بھی کر گئے ہیں ۔ انگریزی تعلیم یافتہ ہیں ۔ آدمی تو برے نہیں اچھے ہیں لیکن اس تعلیم کا اثر ان پر ضرور ہے انہوں نے وطن پہنچ کر یہاں کے زمانہ قیام کے نفع اور اپنی مناسبت کو لکھا تھا اور اظہار عقیدت کیا تھا اور یہ بھی پوچھا تھا کہ غالبا آپ مجھ کو پہچان گئے ہوں گے میں نے یہاں ان کے قیام کے زمانہ میں دیکھا تھا کہ دن بھر میں وہ کئی قسم کا لباس جس کی وضع قطع بھی جدا جدا ہوتی تھی بدلتے رہتے تھے ۔ اس پر میں نے دوسری معاملات کے متعلق مناسب جواب لکھ کر پہچان کے متعلق لکھا تھا کہ میں نے آپ کو خوب پہچان لیا آپ وہ ہیں جو تبدیل لباس میں اس شان کے مظہر تھے ۔ گہے در کسوت لیلی فروشد گہے در صورت مجنون بر آمد اس پر جواب آیا اور اپنی اس حرکت کی معذرت چاہی اور آئندہ کےلئے اس طرز عمل سے بچنے کا وعدہ کیا اور لکھا کہ میں بے حد شرمندہ ہوں اور محجوب ہوں کہ مجھ سے ایسی حرکت کا کیوں صدور ہوا ۔ اب برابر خط و کتابت ہے پوچھتے رہتے ہیں فکر بھی عجیب چیز ہے ۔ (343) مفتیوں کو فضول سوال کا جواب نہ دینا چاہیے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل بعضے علماء کا خصوصا مفتیوں کا یہ طرز نہایت برا ہے