ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
اپنے لئے بھی پسند کرے گا ۔ استاد اور شاگرد میں فرق ہے پیر اور مرید میں فرق ہے ۔ بادشاہ اور رعیت میں فرق ہے یہ تو فطری اور قدرتی چیزیں ہیں اس میں کیا کوئی کہہ سکتا ہے ہر چیز کی حدود ہیں اگر یہ نہ ہو تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے ۔ آخر کہاں تک مساوات کرو گے کل کوئی کہنے لگے کہ مجھ کو نبی نہ بیایا انکو نبی بنایا ہم بھی نبی ہیں ۔ غیر نبی کیوں رہیں کیا جواب ہو گا ۔ یہ مساوات مساوات کا سبق تو یاد کر لیا مگر حدود کی خبر نہیں جیسے ایک پرانا سبق ہے ترقی ترقی نہ اس کے حدود نہ اصول ہر ترقی جیسے محمود نہیں مثلا بوجہ مرض کے کسی کے جسم کے اوپر ورم آ گیا تو اس سے فربہی ہوئی جو بظاہر ترقی ہے مگر طبیبوں اور ڈاکٹروں سے اس کے ازالہ کی تدابیر کراتے ہیں ۔ اور الٹا گھر سے فیس دیتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ہر ترقی محمود نہیں ایسے ہی ہر مساوات بھی محمود نہ ہو گی ۔ غرض اگر غریب خاندان کا آدمی کسی عالی خاندان والے کو اس طرح سلام کرے جس سے فرق ظاہر ہوتا ہو تو اس میں حرج کیا ہے اور اس میں ذلت اور تحقیر کی کون سی بات ہے ۔ مساوات جس معنی کر لیں لوگ چاہتے ہیں حقیقت میں وہ قدرت میں مداخلت ہے دیکھئے ایک کمزور ہے ضعیف ہے ناتواں ہے ایک پہلوان ہے ایک بیمار ہے ایک تندرست ہے ایک مالدار ہے ایک غریب ہے ایک بادشاہ ہے ایک رعیت ہے ایک باپ ہے ایک بیٹا ہے ایک استاد ہے ایک شاگرد ہے ایک پیر ہے ایک مرید ہے ایک مرد ہے ایک عورت ہے ایک جوان ہے ایک بوڑھا ہے ایک حسین ہے اور ایک بد شکل ہے ایک عالم ہے اور ایک جاہل ہے ایک گورا ہے اور ایک کالا ہے تو کرو مساوات کہاں تک کرو گے ۔ اگر تمام کالے جمع ہو کر ایک کمیٹی قائم کر کے یہ رزو لیوشن پاس کریں کہ گوروں سے مطالبہ کریں کہ ہم کو مساوات ہونا چاہیے ہم کالے کیوں تم گورے کیوں تو کیا جواب ہو گا جو ان کو جواب دو وہی ہماری طرف سے سمجھ لیا جائے ۔ (386) کفائت فی الدین ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ آج کل شادی کرنے میں اس کو کوئی نہیں دیکھتا کہ لڑکے میں دین بھی ہے یا نہیں ایمان بھی ہے یا نہیں اب تو اس کو دیکھتے ہیں کہ مال بھی ہے یا نہیں پھر چاہے بے ایمان ہو بد شکل ہو بد اخلاق ہو کچھ نہیں دیکھتے کہتے ہیں کہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دو پیسے لڑکی کو کما کر کھلا سکے بس قصہ ختم اب چاہے وہ کما کر رشوت سے لائے