ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
عالم درہم برہم ہو جاتا کیونکہ ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ سب چیزیں خدا تعالی کی ملک ہیں اور سب اس کے بندے ہیں جو چیز جس کے ہاتھ آئے لے سکتا ہے اس لئے یہ صورت ہبہ کی تجویز فرمائی اور اس کا یہ قانون مقرر کیا کہ یہ صورت بھی مانع ہے دوسروں کے تصرف سے اسی قانون کا نام شریعت ہے ۔ پس یہ شریعت ہی کے خواص میں سے ہے کہ نظام عالم باقی رہے کسی قسم کا فساد نہ ہو ۔ ورنہ بدوں شریعت کے اگر صرف حقیقت ہی پر عمل ہوتا تو حقیقت تو وہی تھی کہ ہر چیز خدا تعالی کی ملک ہے تو سب سے اول ان ہی شاہ صاحب کی گدڑی اترتی جو شریعت کی نفی کر کے حقیقت بگھار رہے ہیں ۔ غرض قانون حقیقت کی بناء پر تو اول شاہ صاحب ہی کا خرقہ اترنا چاہیے تھا ۔ سو عالم کا یہ نظم شریعت مقدسہ ہی کی بدولت ہے ورنہ سب درہم برہم ہوتا ۔ حاجی صاحب نے اس شعر کی شرح میں یہ مضمون فرمایا تھا ۔ سرپنہان ست اند زیر و بم ( مراد توحید حقیقی ) فاش اگر گویم جہاں برہم زنم (اسناد الی السبب ) پس ان حکمتوں کی بناء پر شریعت کو ظاہر فرما دیا گیا اور حقیقت کو مستور فرما دیا گیا ۔ (255) اہل اللہ کی عجیب شان انہماک تعلقات دنیو یہ کے سلسلہ میں فرمایا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں غور کرے تو جس طرح کرایہ پر رہنے والے کو کرایہ کی چیز پر ناز نہیں ہوتا یہ بھی کسی چیز پر ناز نہیں کر سکتا یہی سمجھے گا کہ میرا قیام یہاں عارضی ہے چنانچہ ایک شخص نے ایک بزرگ سے کہا کہ تم کہاں سے کھاتے ہو انہوں نے کہا کہ دنیا ہمارا گھر نہیں ہم یہاں خدا تعالی کے مہمان ہیں اور مہمان کا حق مہمانی تین روز ہوتا ہے اور دن کی مقدار اس آیت میں ارشاد فرماتے ہیں و ان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون یعنی اللہ تعالی کے یہاں ایک ہزار برس کا دن ہوتا ہے پس اس حساب سے تین ہزار برس تک تو یہ سوال ہی نہیں ہو سکتا اس کے بعد پھر سوال کرنا کہ کہاں سے کھاتے ہو ۔ غرض ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ عطاء ہے اور عطاء پر انسان کو ناز نہ کرنا چاہیے جب چاہیں نکال باہر کریں پھر ناز کیسا ہاں شکر کرو اور اہل اللہ کو چونکہ نعمت کی حقیقت زیادہ معلوم ہے اس لئے ان کو نعمت پر شکر زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے جس قدر تعلق نعمت سے ہے اس سے زیادہ منعم سے تعلق ہوتا ہے ان کی زیادہ نظر منعم پر ہوتی ہے ۔ نیز وہ