ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
بات یہ تھی کہ خود داری کا نام و نشان نہ تھا ملے جلے ہنستے بولتے رہتے تھے مگر دل میں ایک انگار دہک رہا تھا بقول نواب شیفتہ تو اے افسردہ دل زاہد یکے در بزم رنداں شو کہ بینی خندہ بر لبہا و آتش پارہ در دلہا میں نے اس ہنسنے پر ایک مثال تجویز کی ہے کہ جیسے تو ہنستا ہے مگر ہاتھ لگا کر کوئی دیکھے پتہ چل جائے گا کہ کیسے ہنستا ہے ان کے قلب میں خدا کی محبت کی ایک آگ بھری تھی ہر وقت خشیت کا غلبہ رہتا تھا ۔ شب و روز آخرت کی فکر لگی تھی یہ بات اس درجہ کی کسی جماعت کے بزرگوں میں نہیں دیکھی ۔ (174) حضرات چشتیہ کی شان ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بعض نقشبندی حضرات کی رائے ہے کہ شیخ کو وقار و تجمل کے ساتھ رہنا چاہیے تاکہ طابعین کے قلب میں عظمت ہونے سے ان کو نفع زائد ہو مگر چشتیوں سے یہ نہیں ہو سکتا ان کا وقار اور تجمل یہی ہے کہ کوئی وقار و تجمل نہ ہو ان کی تو بس یہ شان ہوتی ہے ۔ نہ باشد اہل باطن در پئے آرایش ظاہر بنقاش احتیاجے نیست دیوار گلستان را اور یہ حالت ہوتی ہے دلفریبان نباتی ہمہ زیور بستند دلبر ماست کہ با حسن خدا داد آمد زیر بارند درختاں کہ ثمر ہا دارند اے خوشا سرو کہ از بند غم آزاد آمد اور اصلی حسن سادگی ہی میں معلوم ہوتا ہے ۔ اس رنگ میں حضرات چشتیوں کا حال بچوں کا سا ہے کہ ان کی ہر ادا سے محبوبیت کی شان معلوم ہوتی ہے اور ہر ادا میں کشش ہوتی ہے ۔ (175) حضرات صحابہ جامع اضداد تھے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ صحابہ کرام گویا اضداد کے جامع تھے جو اعلی درجہ کا کمال ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عشق تو ایسا تھا کہ حضور ﷺ کے وضو کا پانی زمین پر نہ