ملفوظات حکیم الامت جلد 7 - یونیکوڈ |
|
تب نیند کا غلبہ ہوا اور وہ ایسی شان کا تھا کہ اگر گفتگو کرتا ہوں تو کوئی اثر نہیں معلوم ہوتا تھا اور جہاں خطوط لکھنا شروع کئے نوم کا غلبہ لیکن لکھتا برابر رہا مگر لکھنے کے بعد جب نظر ثانی کرتا تب معلوم ہوتا کہ غلط لکھا گیا پھر اس کو کاٹ کر لکھتا اس روز کتنے ہی خطوط میں یہ گڑ بڑ ہوئی اور کاٹ پھانٹ کرنی پڑی تو جب ادنی سے نوم کے غلبہ کی یہ حالت ہوگئی تو جن حضرات پر کسی اعلی درجہ کی حالت کا غلبہ ہو ان کی کیا کیفیات ہو گی اسی کی تعبیریں ہیں سکر و غیبت اور استغراق و محویت ان کی حالت اس کا مصداق ہوتی ہے اے تراخارے بپا نشکتہ کے دانی کہ چیست حال شیرا نے کہ شمشیر ملا بر سر خورند اسی غلبہ حال میں ایک درویش نے ریاست رام پور میں خود کشی کر لی تھی ہمارے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک بار موجز کے درس میں مشغول تھے ہم چند طلبہ حاضر خدمت تھے ۔ اثناء درس میں ایک رامپوری طالب علم مظہرالدین نامی نے حضرت سے اس کا قصہ عرض کر کے یہ بھی سوال کیا کہ حضرت اس خود کشی پر ان درویش کو گناہ ہوا یا نہیں حضرت نے فرمایا کہ جا بندہ خدا اس نے تو محبت میں جان دے دی اور تو یہی پوچھ رہا ہے کہ گناہ ہوا یا نہیں ۔ ایسے شخص پر کیا فتوی دیا جا سکتا ہے پھر اسی معذوری کی تائید میں ایک استدلال کیا وہ یہ کہ حدیث شریف میں آیا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندہ کی توبہ سے اس قدر خوش ہوتا ہے کہ ایک شخص اونٹ پر زاد راہ رکھ کر سفر میں چلا کسی منزل پر پہنچ کر اونٹ کو پاس کھڑا کر کے سو گیا وہ اونٹ مع سامان چل دیا اب دفعۃ اس مسافر کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اونٹ غائب اب حالت اس کی معلوم ہے کہ سفر کا تھکا ماندا چلنا دشوار ۔ سرمایہ اور زاد راہ کچھ پاس نہیں کوئی آس پاس امداد کرنے والا نہیں غرض یہ کہ زیست کے تمام اسباب مفقود ہیں اس حالت میں وہ مایوس ہو کر مرنے کےلئے تیار ہو کر پھر سو گیا ۔ پھر جو دفعۃ آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ اونٹ مع سامان موجود ہے اس شدت فرح میں کہتا ہے اللھم انت عبدی و انا ربک اس کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے اخطاء من شدۃ الفرح دیکھئے اس حدیث میں اس کے اس خطا پر نکیر نہیں فرمایا گیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ شرعا معذور ہے اس پر کوئی مواخذہ نہیں گناہ نہیں شدت فرح میں لغزش ہو گئی ۔