ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
( میرے نزدیک تو مصلحت یہ ہے کہ لوگ سارے کام چھوڑ کر محبوب کی زلف کے اسیر ہو جاویں ) اور مسلمان کی حق تعالی کے ساتھ یہ شان ہونی چاہئے ـ ہمہ شہر پرز خوہاں منم و خیال ماھے چہ کنم کہ چشم یک بین نکند بہ کس نگا ہے ( سارا شہر حسینوں سے بھرا ہوا ہے مگر میں تو اپنے چاند کے خیال میں ہوں کیا کروں میری آنکھ جو اس یکتائے زمانہ کو دیکھ چکی ہے کسی کی طرف التفات ہی نہیں کرتی 12 ) اور یہ مذہب ہونا چاہیے ـ دلا رامے کہ داری دل درو بند دگر چشم از ہمہ عالم ( تمہارا جو محبوب ہے اسی سے دل لگائے رہو اور باقی سارے عالم کی طرف سے آنکھ بند کر لو 12 ) غرض نہ کسی کی مدح سے اس کا کچھ بڑھتا ہے نہ کسی کی برائی سے کچھ گھٹتا ہے ـ پھر ان فضولیات میں پڑ کر کیوں آدمی اپنا وقت بیکار برباد کرے ـ قریب ہی کا واقعہ ہے کہ تحریک خلافت کے زمانے میں لوگوں نے مجھ پر کس قدر سب و شتم کیا ـ میرا کیا بگڑ گیا ـ بلکہ ہر طرح کا نفع ہی ہوا اور اسی لئے میں نے لوگوں کے معافی چاہئے سے قبل ہی سب کو معاف کر دیا تھا ـ اور اللہ تعالی سے یہ عرض کر دیا کہ میری وجہ سے مواخزہ کسی پر نہ ہو ـ اس لئے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف پہنچے تو میرا کیا نفع اور معاف کرنے میں تو امید نفع کی بھی ہے کہ میں اپنا حق لوگوں کو معاف کردوں ـ شاید اللہ مجھے معاف فرمادیں ـ اس زمانہ میں عجب ایک ہڑ بونگ مچا رکھا تھا ـ قسم قسم کی دھمکیاں دیجاتی تھیں ـ سمجھتے تھے کہ دھمکیوں سے اپنا مسلک بدل دے گا ـ جیسے خود ہیں ـ ویسا ہی دوسروں کو سمجھتے ہیں ـ اپنے اوپر دوسروں کو قیاس کرتے ہیں ـ اسی زمانہ میں ایک مولوی صاحب دہلی سے یہاں پر آئے تھے ـ وہ ان مسائل کے متعلق خلوت میں کچھ بات کرنا چاہتے تھے ـ میں نے کہا کہ میں خلوت میں گفتگو نہ کروں گا کیونکہ اس میں میرے لئے خطرہ ہے کہ مشتبہ ہو جاؤں گا اور میں اس خطرہ کے لئے تیار نہیں اور جلوت میں آپکے لئے خطرہ ہے ـ مگر آپ اس خطرہ کے لئے تیار ہو چکے ہیں ـ پر کوئی گفتگو نہیں کی ـ ایک مولوی صاحب پانی پت میں فرمانے لگے تم کو واقعات معلوم نہیں ـ ورنہ ہماری مواقفت کرتے ـ میں نے کہا آپ کو تو معلوم ہیں ـ آپ مجھ کو خط و کتابت سے مطلع کر دیں کہنے لگے خط و کتابت میں خطرہ ہے میں نے کہا کہ میری فکر نہ کیجئے جب کوئی گڑبڑ ہوگی میں کہہ دوں گا کہ کسی دشمن نے مجھ کو لکھ دیا میں کیا جانوں ـ