ملفوظات حکیم الامت جلد 3 - یونیکوڈ |
|
تھا جسمیں مولانا انور شاہ صاحب بھی شریک تھے انہیں نے بہت پسند کیا ـ ف ـ احقر اشرف علی کہتا ہے کہ ضابطہ ملفوظات اس مضمون کو کافی طور پر ضبط نہیں کر سکتے اس لئے میں خلاصہ لکھے دیتا ہوں خلاصہ یہ ہے کہ ما اھل بہ لغیر اللہ کو بعض نے خاص کیا ہے اس جانور کے ساتھ جس کو غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاوے اور جو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاوے گو اصل نیت تقرب الی غیر اللہ کی ہو اس کو حلال کہا ہے اور منشا اس کا یہ ہے کہ بعض مفسرین نے اس میں عند الذبح ( ذبح کے وقت ) کی قید لگادی ہے مگر یہ قول محض غلط ہےدوسری آیت ماذبح علی النصب میں ما عام ہے اور وہاں کوئی قید نہیں اور مذبوح باسم اللہ کو بھی شامل ہے سو اس کی حرمت کی علت بجز نیت تقرب کے کیا ہے اسی طرح ما اھل لغیر اللہ بھی عام ہوگا اور دونوں کے مفہوم میں اتنا فرق ہوگا کہ ما اھل نہ لغیر اللہ میں غیراللہ کے لئے نامزد ہونا قرینہ ہوگا قصد تقرب بغیر اللہ کا اگوچہ انصاب بتول پر ذبح نہ کیا جاوے اور ماذبح علی النصب میں ذبح علی الانصاب اس مقصد کا قرینہ ہو گا اگرچہ غیر اللہ کے نامزد کیا گیا ہو پس دونوں میں عموم و خصوص من وجہ ہوگا اور یہی تغایر مبنی ہوگا ایک کے دوسرے پر معطوف ہونے کا سورہ مائدہ میں پس علت حرمت کی قصد مذکور ہوگا یہ قرآن مجید سے استدلام ہے ما اھل بہ لغیراللہ میں عندالذبح کی قید نہ ہونے کی اور فقہاء نے مذبوح القدم الامیر ( جو امیر کے آنے کے وقت اس کے تقرب کے لئے ذبح کیا ہو ) کی حرمت میں اس کی تصریح کی ہے و ان ذبح علی اسم اللہ تعالی ( اگرچہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہو ) اور یہ علت بیان کی ہے ـ لانہ مااھل بہ لغیراللہ بس معلوم ہو کہ عندالذبح کی قید التفاتی جز ما علی العادۃ ہے یا اس قید سے یہ مقصود ہے کہ ذبح کے وقت تک وہ نیت تقرب کی رہی ہو یعنی اگر ذبح کے قبل تو بہ کر لی تو پھر حرمت نہ رہے گی اور تفسیر احمدی میں جو بقر منزورۃ الاولیاء ( اولیاء اللہ کو ثواب پہچانے کے لئے جو جانور ذبح کیا جاوے ) کو حلال کہا ہے وہ اس تحقیق کے خلاف نہیں ہے کیونکہ منہیہ میں یہ تاویل کی ہے کہ ذبح للہ ہے اور نزر سے مقصود ان کو ایصال ثواب ہے تو یہ اختلاف واقعہ کی تحقیق میں ہوا کہ ان کے نزدیک عوام کی نیت تقرب کی نہیں نہ کہ منوی للتقرب ( جس میں تقرب کی نیت کی گئی ہو ) کی حرمت میں اس تاویل سے جو ظاہر ہے کہ منوی للتقرب کو وہ بھی حرام سمجھتے ہیں اور بعض نے ما اھل بہ کو ایسا عام کہا ہے کہ حیوان وغیرہ دونوں شامل ہے یعنی طعام و شرینی بھی اسمیں داخل ہے مگر تامل و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مقصود بیان کرنا احکام حیوان کا رہا ما کے عام ہونے سے استدلال سو