حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
باب4: قومی و ملی کارنامے سیدنا آدم علیہ السلام سے حضورﷺ تک سارے پیغمبر اپنی اقوام کے اجتماعی امور میں اسی طرح دلچسپی لیتے تھے جس طرح وہ اپنی عبادات اور دعوت کا اہتمام کرتے تھے، ایسے ہی دس بارہ سال سے چالیس سال تک کی زندگی میں سیدنا محمد کریمﷺ ہر اس قومی و ملی سرگرمی میں شامل رہے، جس کا تعلق دینِ ابراہیمی، خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کے ساتھ تھا۔تعمیرِ کعبہ اور بئرِ زم زم کی مرمت: کعبۃ اللہ کی تعمیر میں ایک دفعہ بارہ سال کی عمر میں اور ایک دفعہ پینتیں سال کی عمر میں حصہ لیا۔ (الرّوض الانف: ۲/۱۴۶)آپ اکثر وہاں مل جاتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ۳/۳۰) کعبۃ اللہ کے بعد زم زم کا کنواں مرجع خلائق اوربرکت و تیمّن کا مرکز تھا، آپﷺ اپنے چچائوں کے ساتھ اس کی مرمت میں شریک تھے، بزرگوں کیساتھ کم سن محمدﷺ پتھر اٹھا کر لاتے اور چچا کو دے دیتے تھے۔ (الخصائص الکبری: ۱/۱۴۹) ابتدائے عمر کے یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سیدنا محمد کریم علیہ الصلوات و الّتسلیم رفاہِ عامہ کے کاموں سے کبھی غافل نہیں رہے، ایک ذمہ دار شہری کے طور پر ہم وطنوں کے لیے جو کچھ ممکن تھا اس سے دریغ نہیں کیا۔باہمی تنازعات میں صائب فیصلے: یہ ایک بڑی خدمت ہے، جس سے قانون کی عمل داری یقینی ہو جاتی ہے اور معاشرے میں امن کی فضا ہموار ہو جاتی ہے، قریش کی صدیوں پرانی لڑائیوں کی وجہ بھی یہی تھی کہ انصاف نہیں تھا، حضرت ربیع بن خثیم رحمۃ اللہ علیہ اکابر تابعین ؒمیں سے ہیں ، انہوں نے حضورﷺ کے جوانی کے ایام کا مشاہدہ کر رکھا تھا اگرچہ قبولِ اسلام میں دیرکردی تاہم مسلمان ہونے کے بعدوہ صحابہ میں فہیم و دانا معروف تھے اور صحابہ کرام کو حضورﷺ کے ان ایام کے حالات سنایا کرتے، جب اسلام کا اعلان نہیں ہوا تھا، وہ فرماتے ہیں : قبل از اسلام بھی اہل ِمکہ باہمی تنازعات میں آپﷺ سے فیصلے کروایا کرتے اور لوگ پورے اعتماد کے ساتھ آپﷺ کے فیصلوں کو تسلیم کرتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء: ۵/۱۴۷، الخصائص الکبری: ۱/۱۵۴)