حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
یعنی آپﷺ کے رشتہ داروں اور اجنبیوں نے آپ ﷺ کے قریبی گھروں میں رہائشیں رکھیں ، آپ ﷺ نے سب کو خوش و خرم رکھا۔ اور یہ کیوں نہ ہوتا، جس کردار کا درس آپﷺ نے کچھ سالوں کے بعد ساری دنیا کو دینا تھا، اس پر سب سے بہتر عمل نہ کرتے تو آپﷺ کا وعظ بے اثر ہوجاتا، قرآن کریم میں بھی وہی حکم اترا جس کا عملی نمونہ آپﷺ پیش کرچکے تھے، ارشاد ہوا :وَالجَارِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الجُنُبِ (النساء: ۳۶) ترجمہ:اور رشتہ دار ہمسایہ اور اجنبی پڑوسی (سے اچھا سلوک کرو!) (۵)برداشت و بزرگ صفات والے وَاَعْظَمُھُمْ حِلْمًا (سب سے بڑے بزرگ و بردبار) ان چالیس سالوں میں بے شمار انسانوں نے محمدکریم ﷺ کے ساتھ ایسے معاملات ضرور کیے ہوں گے جن پر ایک بااصول انسان کا افسرد ہ قلب ہونا فطری امر ہے۔ تاہم ان مواقع پر آپﷺ نے اخلاقِ عالیہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، معافی، بردباری اور حسنِ کلام سے کام لیا اور قوم نے آپﷺ کو سب سے بڑا حلیم قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ نے فرمایا : اِنَّ ابْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌَ َواَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ(سورۃ ہود: ۷۵) ترجمہ:بے شک، ابراہیم علیہ السلام بردبار، نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے۔ (۶)سب سے بڑے امانت دار وَاعْظَمُھُمْ اَمَانَۃً (سب سے بڑے امانت دار ) امانت کا یہ مفہوم اس لفظ کی تنقیص ہے کہ اسے صرف مالی امانت تک محدود کردیا جائے، رسول رحمت ﷺ کی شان میں یہ لفظ بولا اور لکھا جائے تو شاید یہ مطلب کچھ کافی ہوسکے کہ آپ حقوق الٰہیہ و انسانیہ کو مکمل ادا فرماتے تھے۔ مشرکین سے اللہ نے حضور ﷺ کی امانت داری کی یہ تعریف اس لیے کروائی کہ جس قرآن کو ماننے کا حکم آپﷺ نے ان کو سنانا تھا اس میں بھی امانتوں کی ادائیگی کا حکم آنے والا تھا، چنانچہ ارشاد ہوا: اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکُمْ اَنْ تُؤَ دُّ واالا مَنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا (سورۃ النساء: ۵۸) ترجمہ:بیشک تمہیں اللہ حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچائو!اس آیت کے نزول سے پہلے آپ ﷺنے امانت داری کے کامل مفہوم پر عمل کرکے دکھا دیا۔