حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
امن کا آٹھ نکاتی ایجنڈا: حضرت محمدﷺ کے ساتھ بیٹھنے والے یہ سب حضرات اس اصول پر متفق ہو گئے کہ ظلم ختم کیا جائے،جب تک ظلم و بربریت کا راستہ مسدود نہ کیا جائے، خطہ کے اندر رہنے والے اور حج و عمرہ کے لیے آنے والے مندوبین خوش نہیں رہ سکیں گے۔ امن کے لیے لوگوں کا جمع ہونا رسول رحمتﷺ کے دل کی آواز تھی، آپﷺ کی موجودگی میں جو اجلاس ہوا یہاں اکثر قبائل کے سرداروں اور سمجھ دار لوگوں کویہ بریفنگ دی گئی کہ ملک کی بے امنی، راستوں کے پرخطر ہونے، مسافروں کے لٹنے اور غریبوں پر زبر دستوں کے مظالم نے علاقہ کے ہر مکین کو پریشان کررکھا ہے اسی مجلس میں ان سب باتوں کی اصلاح پر توجہ دلائی گئی، بالآخر ایک انجمن قائم ہو گئی، جس میں بنو ہاشم بنو عبدالمطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم شامل تھے۔ اس انجمن کے ممبر مندرجہ ذیل اصولوں پر مبنی دستاویز کا عہد و اقرار کیا کرتے تھے۔ ۱۔ ہم ایک قوت بن کر رہیں گے۔ ۲۔ ہم ملک سے بے امنی دوری کریں گے۔ ۳۔ ہم مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے۔ ۴۔ ہم غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔ ۵۔ ہم زبردست کو زیردست پر ظلم کرنے سے روکا کریں گے۔ ۶۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ کسی مستحق کو اس کا حق نہ دلوا دیں ، ہم شریف لوگوں کے ساتھ ہیں ۔ ۷۔ مکہ کے اندر رہنے والے اور اس کے قرب و جوار کی سب بستیوں میں اس معاہدے کا اطلاق ہو گا۔ ۸۔ مکہ مکرمہ امن کا شہر ہے، اس میں کسی ظالم کو رہنے کا حق نہیں ہے۔ (الروض الانف: ۲/۷۳) اس جماعت کے اصل محرک تو آپﷺ کے چچا زبیر تھے لیکن سب سے بڑے مؤید محمدﷺ تھے۔ وہ عرب میں اپنا مقام بناچکے تھے ، وہ تائید نہ کرتے تو جماعت ناکام ہوجاتی۔ خصوصًا نوجوانوں کی تائید آپﷺ کے طفیل ملی۔اس آٹھ نکاتی ایجنڈے پر سب نے اتفاق کیا اور یک جان ہو کر اس پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔(انگلستان میں نائف ہڈ کا آرڈر جس کے ممبر قریباً یہی اقرار کیا کرتے تھے) اس انجمن سے کئی صدیوں کے بعد قائم ہوا تھا)۔ (رحمۃ للعالمین ﷺمولانا منصور پوریؒ)