حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
یہ منجانب اللہ تیاری تھی کہ جب سیدنا محمدرسو ل اللہ ﷺ نبوت کا اعلان کریں تو آپﷺ کانام اجنبی نہ لگے، ہر شخص اس اسم گرامی سے مانوس ہوجائے۔ آپﷺ کے نام کی طرح عوام وخواص میں آپﷺ کا احترام دنوں میں پیدا کردیا گیا۔جزیرۃُ العَرَ اوربر بڑے شہروں میں شہرت عرب میں اور خصوصاً مکہ میں اس وقت بڑے بڑے دانا موجود تھے، اس کے باوجود آپﷺ کا نام بھی ایسے ذی احترام لوگوں میں شامل تھا جن سے لوگ اپنے فیصلے کروا لیتے تھے، آپﷺ کے فیصلے قبل از نبوت بھی بڑے صائب اور قابل قبول ہوتے تھے۔ (الخصائص الکبریٰ: ۱/ ۱۵۴، سیرۃ ابن اسحاق: ۱/ ۱۷۸)خطیب عرب کی پیش گوئی: جناب ابو طالب متولیانِ کعبہ، خدّام الحجاج اور شرفاء قریش میں سے تھے اس لیے وہ حج کے موقعہ پر میزبان ہوتے اور حجاج ان کے مہمان ہوتے اورطائف، مدینہ، مصر، شام اور یمن کے معزّزین ان سے ملتے تھے، وہاں جب وہ نبی اکرمﷺ سے ملتے آپ ﷺ کا مسکراتا چہر دیکھتے، اخلاق کامطالعہ کرتے تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے، حضرت اکثم صیفی رضی اللہ عنہ جن کو ان کی شرافت ، نجابت اور عقل و دانش کی وجہ سے حکیم العرب کا لقب ملا تھا، انہوں نے ایک حج میں آپﷺ کو دیکھا، عادات واطواراور کردار وگفتار کو ملاحظہ کیا تو بول اٹھے: اب اگلا دور اسی جوان کا ہے۔ عربوں کو ایسی عزت اس کے ذریعے ملے گی کہ وہ پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔ (سبل الہدیٰ: ۲/ ۱۴۷) اس طرح اعلانِ نبوت سے پہلے ہی آپﷺ کا شہرہ جزیرۃ العرب سے نکل کر چہار دانگِ عالم میں پہنچ چکا تھا۔ اور آپ ﷺکا ذکر خیر بڑی بڑی مجلسوں میں ہو رہا تھا۔ یہ محبوبیت عامہ خاص عطائے الٰہی تھی، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں فرما دیا تھا۔ مُحَمَّدٌ حَبِیْبُ الرَّحْمنٰ۔ (شرح الشفاء: ۱/ ۴۰۱) ’’(ہمارے )محمد (نامی نبی) اللہ کے محبوب ہوں گے۔‘‘یمن ،شام اور موصل میں عزت: اور اللہ کا یہ اصول ہمیشہ سے انسانیت کے ساتھ چلا آرہا ہے کہ اللہ جس سے پیار کرتے ہیں ، آسمانوں کے فرشتوں میں اپنی محبت کا اعلان کر کے کہتے ہیں کہ تم بھی اس شخصیت سے پیار کرو! اس کے بعد وہ محبت زمین والوں میں پھیلا دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاری: ۳۲۰۹)