حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
لگوانا) اس لیے پسند تھا کہ یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السّلام کی محبوب سُنت ہے۔ (المعجم الکبیر: ۱۱/۱۵۶،حدیث نمبر: ۱۱۴۴۹)نکاح،پاک دامنی: حضور نبی مکرم علیہ الصلوات والتسلیمات نے قبل از اسلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا، تمام انبیاء علیہم السّلام کی یہ مشترکہ سُنت ہے(سُنَنُ الترمذی: حدیث، ۱۰۸۰)۔ تاریخ وسیر کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ شرفاء بغیر نکاح کسی عورت سے تعلق کو معیوب سمجھتے تھے، رسول اللہ ﷺ بھی ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔حضرت ورقہ رضی اللہ عنہ بن نوفل نے اُن کا نکاح پڑھایا، باقاعدہ ایجاب وقبول ہوا مہر کے دو سو اونٹ مقرر ہوئے اور جناب ابو طالب نے ایسا خُطبہ پڑھا، جس میں انہوں نے اللہ وحدہ لا شریک لہٗ، کی حمد و ثناء کے بعد جنابِ رسالتمآب ﷺ کی شان میں بھی بڑے اچھے کلمات ادا کیے۔ (الزّرقانی، باب تزویجہ ﷺ)۔ رسول رحمت ﷺ کی طبع شریف میں جو کمالات بزرگوں کے اخلاق عالیہ سے ودیعت رکھے گئے، ان میں سے ایک جسمانی حسن و جمال اور دوسری عفت و شرافت تھی، آپﷺ کے والد حضرت عبد اللہ بھی عفیف و حسین تھے۔ (تاریخ الخمیس: ۱/۱۸۴) قابلِ رشک جوانی، حُسن لامثال اور شرافتِ با کمال کے با وصف ایک بہت بڑا کمال یہ ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی حرفِ غلط کی طرح بھی کسی نا محرم سے تعلق نہیں رکھا، پورا شہر آپﷺ کی اس صفت کے گن گاتا اور آپﷺ کے اعزہ اس جوان رعنا کے شبابِ بے داغ پر فخر کرتے۔( عیون الاثر :۲/۴۰۳) حضورﷺ جب غارِ حرا سے قرآن کی پہلی آیتیں لے کرآئے اس دن( پندرہ سالہ رفاقت کے بعد )آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا گواہی دیتی ہوئی فرماتی ہیں ۔ ماَاتَیْتَ فَاحِشَۃً قَطُّ آپ کبھی کسی بدکار عورت سے نہیں ملے۔ (تاریخِ طبری : ۲/۲۹۹) یہ گواہی صرف ان پندرہ سالوں کی نہیں بلکہ اس جملے میں موجود لفظ (قَطُّ) کامفہوم یہ ہے کہ بچپن ،جوانی اورشادی کے بعد تک کبھی بھی اورکسی بھی غیر عورت سے آپﷺ کاسامنا نہیں ہوا۔احترام شعائر ُاللہ: قرآن کریم میں ہے :وَمَن یُّعَظِّمْ شَعَائرَاللّٰہ فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَی القُلُوبِ جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔ (الانبیاء ۳۲)