حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
باب2: سماجی کردار،عادات و خصائل یہ تو ہرذی شعور جانتا ہے کہ جب آپﷺ نے سب لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دی کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، ہر ایک کی نظریں حضرت محمدﷺ کے کردار پراور کان ان کی زبان مبارک سے نکلنے والی ہر بات کی طرف متوجہ ہوگئے، لیکن بہت لوگوں کو علم ہے کہ اس اعلان سے پہلے کی زندگی بھی مکہ والوں نے بنظر خاص دیکھی تھی،حضورﷺ کی وہ زندگی ان ہی خطوط پر استوار تھی، جن پر ظہورِ اسلام کے اعلان کے بعد رہی، اس باب میں نبی محترمﷺ کی ان عادات جسمانی، قولی، فعلی اور آپ ﷺ کے انسانی امتیازات کا تذکرہ ہے جوسب سے بڑے انسان کی بے داغ جوانی کی بنیادی علامتیں ہوسکتی ہیں ،اورجن کاتعلق ،ماحول ،گرد وپیش اورسماج سے ہے خصوصاً سیدنا محمد کریمﷺ کے القاب الصَّادِق وَالْاَمِیْن کی ذیلی خاصیات کی سترہ شقیں خاصے کی چیز ہے۔ اَلْأَمِیْنُ: سترہ انسانی خوبیوں سے مزین لقب حضرت دائود بن الحصین ؒ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے حضرت نبی مکرم ﷺ کو جوان ہوتے دیکھا ان کا بیان ہے کہ سیدنا محمد کریم ﷺمیں کچھ صفات ایسی تھیں جن کی بنیاد پر آپﷺ کی قوم نے نبوت سے ملنے سے پہلے’’اَلاَْمِیْن‘‘ لقب دیا تھا حضور ﷺ اس شان سے جوان ہوئے کہ آپ ﷺ میں مندرجہ ذیل خصوصیات وصفات تھیں اس کے بعد انہوں نے سترہ اوصاف کا ذکر کیا۔ملاحظہ: سترہ خوبیوں میں سے چودہ کا تذکرہ (سیرۃ ابن کثیر:۱/۲۴۹، البدایہ والنھایۃ: ۴۴۲۳، نورالیقین:۱/۱۴، الخصائص الکبریٰ:۱/۱۵۳) میں موجود ہے،جوتین دیگرکتابوں میں ہیں ، ان پرعلیحدہ حوالہ ہے۔ اب ان خاصیات کو جلی عنوانوں کے ساتھ ذکر کیا جاتاہے ۔(1)مردانہ صفات والے: حضور ﷺ اَفْضَلُ قَومِہٖ مُرُوْئَ ۃً (حضورﷺاپنی قوم میں سب سے اچھے مردانہ صفات والے تھے) یعنی بہادر، قوی، قائدا ور وجیہہ تھے، عربوں نے آپ ﷺ کی شان میں جوجملہ کہا اس تعریف کے پیچھے آپ ﷺ کی چالیس سالہ انسانی حقوق کی پاسداری کا عملِ مسلسل ہے، اگر آپﷺنے کبھی بزدلی کا مظاہرہ کیا ہوتا، مردانگی کے خلاف کام کیا ہوتا اور قائدانہ صلاحیتیں آپﷺ میں نہ ہوتیں تو وہ آپ ﷺ کو یہ لقب نہ دیتے مُرُوْئَ ۃ کے معنی کمال مردانگی کے ہیں اور یہ لفظ رُجُولیت کے ہم معنٰی ہے۔(مفردات القرآن:م،ر،ء)