حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت عمار رضی اللہ عنہ بنی مخزوم کے حلیف تھے یا ان کے آزاد کیے ہوئے تھے، اس کے باوجود حضورﷺ ان کو وقت دیتے تھے، حالانکہ حضورﷺ کا شمار مکہ کے معززترین لوگوں میں تھا ، حضرت عماررضی اللہ عنہ کی طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بھی غلام تھے لیکن حضرت محمدﷺ ان سے انسانی ہمدردی ،مودت و محبت رکھتے تھے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ رومی اور حضرت عمار ابتدائی مسلمانوں یعنی اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں سے ہیں ۔ (اسد الغابہ: ۳/۶۲۷)حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بن سنان رومی: مکہ میں رہتے تھے، زبردست تیر انداز تھے ،پاکیزہ خیالات کے حامل یہ نوجوان قبل از نبوت نبی رحمتﷺ کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے۔ آپﷺ کی زیارت کرتے، عبادات کو دیکھتے، دین ابراہیمی او ر سابقہ نبیوں کی شریعتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے، انہیں آپﷺ کے عہد ِشباب کی دوستی پر فخر تھا۔ (الاصابۃ: ۱/۳۶۵) دعوائے نبوت کی آواز سنی تو فوراً مسلمان ہو گئے۔ نبی اکرمﷺ فرمایا کرتے تھے۔ صَہَیْب رضی اللہ عنہ سَابِقُ الرُّوْم ’’صہیب رضی اللہ عنہ تو روم والوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ۔‘‘ (سبل الہدیٰ والرشاد: ۹/۱۶۵)حضرت صعصعہ رضی اللہ عنہ بن ناجیہ اور حکیم العرب: سلیم الفطرت، نفیس الطبع، انسانیت نواز اور غریب پرور تھے ،جس طرح نبی رحمتﷺ عرب کی اس عادت سے ناخوش تھے کہ وہ بچیوں کو زندہ ہی دفن کر دیتے تھے اسی طرح حضرت صعصعہ رضی اللہ عنہ بھی اس فعل بد سے نالاں تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں کے دلوں پہ قلب محمدﷺ کی روشنی کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے تھے، اور بھلے لوگ حضورﷺکے اخلاق کی برکت سے آپﷺ کے گرد جمع ہو رہے تھے۔ حضرت صعصعہ رضی اللہ عنہ اس گھر میں پہنچ جاتے جہاں بچی کی پیدائش کی خبر سنتے تھے، ان کو کہتے: میں تم سے اس بچی کی روح دو گا بھن اونٹنیوں کے بدلے خریدتا ہوں ، تم اس بچی کو نہ مارنا! حضرت صعصعہ رضی اللہ عنہ اس طرح مسلسل یہ عمل کرتے رہے اور بیٹی والے نوزائدہ بچی ان کے حوالے کرتے رہے، جب یہ مسلمان ہوئے تو حضورﷺ کو ایک یادداشت پیش کی: یا رسول اللہ! میں نے تین سو ساٹھ بچیاں زندہ درگور ہونے سے بچائی ہیں ۔ (میں اس وقت مسلمان تو تھا نہیں ویسے بھی یہ ظہور اسلام سے پہلے کا عمل ہے) کیا میرا یہ عمل اس قابل ہے کہ (روز قیامت) کوئی اجر ملے؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں تمہیں اس کا اجر (مل گیا ہے، دیکھتے نہیں تم نے اسلام قبول کر لیا) اللہ نے تم پر احسان کیا ہے یہ اسی نیکی کا بدلہ ہے۔ (اسد الغابہ: ۲/۴۰۵)