حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ان کامیابیوں کے پیچھے آپﷺ کی وہ شان تھی جس کا ذکر تو راۃہ میں بیان ہو چکا تھا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، ان کا اسم گرامی ’’اَلْمُتَوَکَّلْ‘‘ ہے یعنی وہ اللہ پر بھرسہ رکھتے ہیں (المواھب اللدنیۃ ۲/۵۴۹)توراۃکے بعد متوکلین کیشان قرآن کریم میں یوں بیان کی گئی: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں (سورہ الطلاق: ۳)آدابِ طہارت وعبادات ظہورِ نبوت سے پہلے بھی سیدنامحمدکریم علیہ الصلوات والتسلیم کوآپﷺ کے عم زاد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھاکہ طبعی ضرورت کے لیے آپﷺ شہر سے باہر اتنی دور نکل جاتے کہ وہاں آبادی نظر نہ آتی، پھر کسی محفوظ جگہ پہ آپﷺ قضائے حاجت فرماتے تھے۔ (السیرۃ الحلبیۃ ۱/۳۲۱) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مکہ مکرمہ میں آپﷺ کے ساتھ آپﷺ کی تربیت میں رہتا تھا، ایک دن میں آپﷺ کے ساتھ جارہا تھا جس پہاڑ اور درخت کے پاس سے ہم گذرتے ہمیں ان پہاڑوں اور درختوں سے یہ آواز آتی تھی اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۳۲۱)غسل جنابت ،وضو: قبل از اسلام عربوں میں غسل جنابت کااہتمام تھا وہ ناک میں پانی ڈالنے اور کلی (غرارہ) کو بھی غسل کا لازمی حصہ تصور کرتے تھے۔ (السیرۃ الحلبیۃ ۱/۳۷۹) آپﷺ نے فرمایا: مجھے اس وقت بھی غسل کی عقل تھی جب وحی نہیں آتی تھی۔(امتاع الاسماع ۲/۳۴۷)سیدنا محمد کریمﷺ نے فرمایا: وضو یعنی کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا یہ با قیاتِ اعمالِ مرسلین علیہم الصلوات وسلام ُالرحیم میں سے ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ توراۃ کے عالم تھے (مختلف مسیحی خانقاہوں کے منتظم وخادم خاص رہ چکے تھے )انہوں نے حضورﷺ سے گذارش کی کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کا ذکر توراہ میں بھی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے سنا اور خاموش رہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر ۵۹۷۲) وضو اور اس کے علاوہ صبح و شام دانتوں کی صفائی اور ان میں نکھار کے لیے لکڑی کی مسواک کرنا بھی رائج تھا اور ارشاد فرمایا، وضوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت کی خاص نشانیوں میں سے ہے۔