حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کاروباری معاملات میں شراکت داروں کا اعتماد بحال رکھنا حقوق العباد میں بھی شامل ہے اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے جنہوں نے آپ پر اعتماد کیا ہے۔(۱۰)انسانِ کامل حضرت محمدﷺ: اب تک جو لکھا گیا ان کا دو لفظی خلاصہ یہ ہے کہ آپﷺ انسانِ کامل تھے۔ ٭ جب ابو طالب کو بحیرا راہب نے خبر دی کہ آپ کا یہ بھتیجا نبی ہو گا۔(السیرۃ الحلبیہ:ج۱ ص ۱۴۰) جب زید بن عمرو نے سنا کہ یہودی کہتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں آخری پیغمبر کی جو علامت ہیں ، وہ یتیم مکہ میں موجود ہیں ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی :باب ۵۸) ٭جب ورقہ بن نوفل نے سنا کہ آپﷺ کے پاس فرشتے آتے ہیں ۔ (اسدالغابہ:۴/۵۷۱) ٭ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے سن لیا کہ غارِ حراء کی تنہائیوں میں آپﷺ کو کوئی آسمانی مخلوق آ کر ملتی ہے۔(اسدالغابہ :۴/۵۷۰) ٭جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپﷺ نے اپنی نبوت کی خبر دے دی۔ (اسدالغابہ:۱/۲۰۸) اور جب اہل کتاب نے بار بار مشاہدات کیے، پھر کتابوں کا مطالعہ کیا اور پھر سے آپﷺ کے اخلاق و کردار کو خوب غور سے دیکھا(سبل الہدیٰ ۱/۱۳۵) الغرض: جن لوگوں نے بھی اطلاع نبوت ملتے ہی آپﷺ نبی تصور کر لیا، وہ کسی سحر، خطابت، شعر و شاعری اور کسی غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس تصدیق کے پیچھے آپﷺکا ’’انسان کامل‘‘ ہونا ہے کہ جو شخص حقوق اللہ و حقوق العباد میں اسوۂ ابراہیمی کا پابند ہو، جس میں زہد عیسیٰ ؑکی جھلک نظر آئے، وہ صدق اسماعیل ؑکا خوگر ہو جسیدیکھ کر حسن یوسفؑ کی یاد آتی ہو، جو صبرِ ایوبؑ کی تمثیل ہو اور جو دعائے یونس ؑکا سوز رکھتا ہو تو کیوں نہ کہہ دیا جائے۔یہی ہیں رحمۃٌ للعالمینﷺ و خاتم النّبیینﷺ۔ چالیس سال کی عمر میں آپﷺ کی جو توصیف، تصدیق اور تائید ہوئی اس کے پیچھے بھرپور جوانی کا شریفانہ کردار ہے جو کھلی کتاب تھی جسے ہر شخص پڑھ سکتا تھا۔ موسمِ حج میں جو لوگ طواف و زیارات اور عبادات کے لیے دوسرے شہروں سے مکہ کا رخ کرتے تھے، وہ بھی آپﷺ کی پہلی ملاقات میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔عیون الاثر:۱/۸۵،الاصابہ۵/۴۱۲، اللآلی المصنوعہ ص ۲۸)