حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت ابو سفیان مغیرہ بن شعبہ: آپﷺ کے ہم عمر، عم زاد اور رشتہ رضاعت کی نسبتوں کی وجہ سے آپﷺ کے محب و محبوب بھائی تھے، ان کی شکل بھی نبی رحمتﷺسے ملتی تھی، ہم عصری اور برابر کے رشتوں کے باوجود آپﷺ کا ادب کرتے تھے، مکہ میں جب یہ جوڑی خانہ کعبہ اور اس کے گرد و نواح میں نظر آتی تو خونی رشتے شادماں ہوتے اوررقیبوں کو یہ دوستی اچھی نہ لگتی ، لیکن زمانے کی گردش نے دونوں کی راہیں اس وقت جدا کر دیں جب حضرت محمدﷺ نے دعوائے نبوت فرما کر اپنے رب کے حکم کو پورا کیا اور مغیرہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ دادے کے دین سے وابستہ رہے۔ جب حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کی مخالفت کرتے تو آپﷺ کو اس محبت کی وجہ سے زیادہ غم ہوتا جو چالیس سالہ دوررفاقت میں قائم رہی تھی فتح مکہ میں ایمان لائے تو آپﷺ نے محبوبانہ ناراضگی کیو جہ سے منہ پھیرے رکھا بالآخر انہوں نے کہلوایا کہ محمدﷺ مجھے معاف نہیں کرتے تو میں اپنے بیٹے کو لے کر صحراؤں میں گم ہو جاؤں گا، اور کبھی واپس نہ آؤں گا، آپﷺ نے جب یہ سنا تو دل بھر آیا اور معاف کر دیا حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے سنا تو وہ دربارِ نبوت میں حاضر ہو کر آپﷺ کے گلے لگ گئے، پھر محبت رسولﷺ میں ایسے کارنامے انجام دے کر ایک دن حضورﷺ نے فرمایا: میرے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مغیرہ رضی اللہ عنہ ہی اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں ۔ (الاعلام للذرکلی: ۷/۲۷۶)حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ المشاجعی : سلیم الفطرت تھے، مزاح ان کی طبیعت کا حصہ تھا۔ حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ مشاجعی کے متعلق بھی لکھا ہے: کَانَ صِدّیقًا لِرَسُول اللّٰہِﷺ قَدِیْمًا (الاستیعاب: ۱/۳۸۲) وہ آپﷺ کے قدیم دوست تھے، اسلام کے بعدبھی آپﷺ سے بے تکلف ہو جاتے تھے، آپﷺ ان کی باتوں میں دلچسپی لیتے اور ان کی دل لگی پر تبسم فرماتے رہتے اور ان کی شگفتہ مزاجی سے محفوظ ہوتے تھے لیکن حالتِ کفر میں حضورﷺ سے پرانی محبت برقرار رہی، اس لیے ایک دن آپﷺ کو ہدیہ پیش کیا تو آپﷺ نے ان کو بھی فرمایا: میں مشرک کا ہدیہ قبول نہیں کرتا۔ (الصحابہ: ۴/۶۲۵۔ الموتلف: ۲/۲) ہدیے کی واپسی ان کے لیے ایک تنبیہہ تھی کہ حضرت محمدﷺاللہ کے رسو ل ہیں ان کی محبتوں سے مستفید ہونے کے لیے ایمان ضروری ہے، سابقہ دوستی کافی نہیں ہے۔