حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اگر کوئی کمزوری ہوئی تو ان حضرات و خواتین کو نظر آتی جنہوں نے لڑکپن سے عہد شباب تک آپﷺ کو خوب دیکھا اور معاملات رکھے۔ خاندانِ ابو طالب کی الفت کا انداز حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے اس جملہ سے کیجیے، جو انہوں نے قبول اسلام کے بعد فرمایا: حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کا شوہر ہبیرہ اس دن بھاگ کر کہیں چلا گیا۔ جس دن اللہ نے آپﷺ کو مکہ کی حکومت نصیب فرمائی تھی، اسی دن حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنہامسلمان ہوئیں تو نبی علیہ السلام نے ان کو نکاح کا مشورہ دیا، انہوں نے عرض کی: میں تو قبل از اسلام بھی آپﷺ کو بہت اچھا سمجھتی تھی اب جبکہ مسلمان ہوں تو کیوں نہ آپﷺ سے یہ تعلق رکھنا چاہوں گی؟ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، میں نہیں چاہتی کہ یہ آپﷺ کو پریشان کریں ۔ (المحبر: ۱/ ۳۹۶) الغرض سیدالعٰلمینﷺ کو بہت قریب سے دیکھنے والے، آپﷺ کے ساتھ معاملات رکھنے والے عزیز و اقارب کو کبھی یہ شکایت نہ ہوئی کہ آپﷺ ان کے حقوق ادا نہیں کرتے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بچوں کے ساتھ : ایک اور خاندان جس میں حضرت محمدﷺ کو زیادہ رہنے کا موقعہ ملا، وہ آپﷺے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ان کی اہلیہ حضرت لبابہ ام الفضل رضی اللہ عنہا، ان کی اولاد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت قثم بن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عبدالرحمن بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت معبد رضی اللہ عنہ، یہ چھے بیٹے تھے جو حضورﷺ کے چچیرے بھائی، ان کے والد آپﷺکے چچا اور ان کی والدہ اُم الفضل لبابہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺکی چچی تھیں ۔ یہ پورا گھرانہ فدایانِ محمدﷺ اور آپﷺ کے تبسم کا اسیر تھا، بچے سب ہی چھوٹے تھے، آپﷺ ان سے خوب دل لگی فرماتے، کبھی ان کی دوڑ پر انعام مقرر فرماتے اور کبھی ان کے ساتھ بے تکلف ہوکر خود بھی کھیلنے کے انداز اختیار فرماتے تاکہ یہ بچے خوش رہیں ۔ (اسد الغابہ الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ ) حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا قبول اسلام سے پہلے ہی سے اپنے اس بھانجے کو بزرگ و متبرک سمجھتی تھی ان کے گھر جب بچے کی پیدائش ہوئی تو نومولود کو حضرت محمد علیہ السلام کے پاس اس لیے لائیں کہ وہ بچے پر دم کریں ، اسے اپنی دعائوں سے نوازیں ، اسے پہلی خوراک (گھٹی) اپنے ہاتھ سے دیں اور آپﷺ ہی اس بچے کا نام رکھیں ،اُمّ الفضل رضی اللہ عنہا کے مبارک بھتیجے نے چچی کی یہ تمنا پوری کی۔ (اسد الغابہ: ۳/ ۱۸۶)