حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ہم سفروں کا خیال بہت سے انسان گھر میں ، ہم وطنوں میں اور وطن سے باہر سفروں میں مختلف مزاج رکھتے ہیں ، اس لیے جب تک اس کے یہ مختلف روپ دیکھے نہ جائیں ان کی شخصیت پر کوئی جامع تبصرہ مشکل ہو جاتا ہے، ہمارے نبی علیہ السلام کی مبارک زندگی کے یہ تینوں پہلو لوگوں کے سامنے ہیں ، گھریلو زندگی اور اہل مکہ کے درمیان آپﷺ کی زندگی کے تابناک مناظر کا بیان ہوچکا، اب یہ ضروری ہے کہ سفری حالات کا مطالعہ بھی کیاجائے تاکہ ہم سفرمسافروں کے حقوق کے چند اسباق بھی حاصل کیے جائیں ۔قبل از نبوت بھی آپﷺ نے سفر فرمائے۔ جرش (یمن) شام، عکاظ اور بصریٰ کے اسفار کا ذکر ملتا ہے، ان اسفار میں آپﷺنے دانش مندی، حاضر دماغی اور ہم سفروں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کے جو مناظر پیش فرمائے، ان میں حقوق العباد کا عنصر غالب ہے، اللہ نے آپﷺ کی فطرت میں دوسروں کے کام آنے کا ذوق رکھا تھا، جس کے مظاہر وطن سے باہر بھی نظر آتے تھے اور حضور ﷺ کی سیرت کا یہ جو ہر کم عمری میں ہی لوگوں کے سامنے آگیا تھا۔ پہلا سفر بارہ سال کی عمر میں ہوا، اس میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ جب شام کے سفر پہ روانہ ہوئے تو آپﷺ نے ہم سفروں کے حقوق کی مکمل رعایت فرمائی، جس وقت بحیراء راہب نے آپﷺ کے ہم سفروں کے لیے کھانا تیار کرلیا اور آپﷺ کے بارے میں سوال کیا، تو حاضرین نے جواب دیا کہ محمدﷺونٹ چرانے گئے ہوئے ہیں ۔ (اس قافلے میں آپﷺ ہی سب سے کم عمر تھے اس لیے سب کی اجتماعی خدمت کا آپﷺ نے انتخاب فرمایا) جب آپﷺ واپس آئے تو سب نے کھانا کھایا۔ (سبل الہدیٰ: ۲/ ۱۳۹) اس لیے کہ بحیراء نے آپﷺ ہی کے اعزاز میں اہل قافلہ کی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اس سفر میں آپﷺ کو بتایا جا چکا تھا کہ آپﷺ سید العالمینﷺ اور سید المرسلین ہیں ۔ اس خبر کا اثر ایک ناپختہ انسان پر یہ ہونا چاہیے کہ وہ غرور اور تکبر کی بیماری میں مبتلا ہو جائے اور دوسروں کو اپنے سے کم تر خیال کرے، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ پوری زندگی نہیں ہوا، آپﷺ سفر و حضر میں نفع رسانی کے کام کرتے ہی رہے نو عمری میں آپﷺ سب کے لاڈلے، سب کے عزیز ،آنکھوں کے تارے اور ہر شخص آپﷺ کی ناز برداری پہ نازاں ، مگر مجال ہے کہ نخوت و غرور یا سستی و کاہلی قریب آئے! ناں مخدوم بننے کا شوق ہے اور ناں خاندانی و نسبی عظمت انسانی صفاتِ حمیدہ میں رکاوٹ ہے، سب کی خدمت کو سرمایہ افتخار جانتے ہیں ، موقعہ ملا تو بکریاں چرائیں ، بڑے ہوئے، چچا نے بیرونِ ملک تجارت جیسے جانکاہ کام کا عندیہ پیش کیا، فوراً تیار ہوگئے، ان کے تاجر ساتھی آپﷺ کی معیت میں گذرے لمحات کو حاصل سفر شمار کرتے تھے۔ (سبل الہدی: ۲/ ۱۵۶۔ اسد الغابہ: ۲/ ۱۶۴)