حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضورﷺ کے فیصلے اوراہل مکہ کے کچھ قوانین : ٭… محمدﷺ جھگڑوں کے فیصلے عقل خدادا کی بنا پر کرتے تھے، اس لیے، ان کو نہ ماننے والا کم عقل سمجھا جاتا تھا۔اس لیے کہ معززین شہر میں آپﷺ سیّد القوم اور پسندیدہ ترین تھے۔ (الطبقات الکبریٰ۳/۴۲،سیرۃ ابن ہشام :۱/۲۹۹) ٭… آپﷺ کے عہد شباب تک دین ابراہیمی کی چند سنتیں باقی تھیں ، آپﷺ ان کو سامنے رکھ کر مدعی اور مدعیٰ علیہ کو مطمئن فرماتے تھے، علاوہ ازیں چند قوانین رائج تھے۔ ۱۔ دیت میں ایک سو اونٹوں کی ادائیگی ۲۔ تین طلاقوں پر میاں بیوی میں جدائی ، پہلی اور دوسری طلاق پر رجوع کا حق تھا۔ ۳۔ مار پیٹ اور کسی کو زخمی کرنے پر قصاص کی ادائیگی کا سلسلہ جاری تھا۔ ۴۔ محرم عورتوں سے نکاح کی حرمت کا قانون رائج تھا۔ ۵۔ شراب کی قباحت تو عام تھی لیکن اسے بالکل ترک نہیں کیا تھا بعض لوگ اس سے شدید نفرت کرتے تھے اور عورتوں کے شراب پینے کو ہر شخص سختی سے منع کرتا تھا۔ ۶۔ قسامہ کا قانون نافذ تھا۔ (مدخل لفہم السیرۃ :۱/۲۷،بلوغ الارب: ۲/۲۸۶، ۳۰۰) ان کے علاوہ کچھ مزید ملی قوانین کا ذکر ملتا ہے۔ ظہورِ اسلام کے بعد بھی یہ قوانین برقراررہے ۔اس لیے یہ امر مسلّم ہے کہ جہاں حضورﷺ اپنی بصیرت سے فیصلے کرتے تھے وہاں مذکورہ قوانین کا لحاظ بھی فرماتے تھے۔قومی تنازعہ کامُحَیّرالعقول حل سرور عالم ﷺ کی عمر شریف کا پینتیسواں سال تھا، بروایت دیگر پچیسواں سال تھا (سبل الہدی ۲/۱۷۳)قریش نے اللہ کے گھر کو از سر نو بنانے کا فیصلہ کر لیا، جس دن سنگ بنیاد سے دیواریں بلند کی جا رہی تھیں ، وہ روز روزِ عید تھا، ہر بڑے چھوٹے کی خواہش تھی کہ وہ اس خدمت سے محروم نہ رہے، مختلف قبائل نے اپنا اپنا حصہ بنانا شروع کر دیا، جب اس مقدس پتھر کو اس کی مقررہ جگہ رکھنے کی نوبت آئی، جسے حجر اسود کہا جاتا ہے، تو ہر شخص کی خواہش تھی کہ وہ یہ خدمت انجام دے، اس لیے اختلاف ہوا، رائے کے تفاوت نے جب جنگ و جدل کا خدشہ پیدا کر دیا تو شہر کے معززین کو فکر ہوئی کہ یہ معاملہ اگرخوش اسلوبی سے نہ نمٹ سکا تو کوئی ناخوشگوار واقعہ بھی ہوسکتاہے۔