حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
بچوں کی تعلیم و تربیت: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضورﷺ کے بیٹے قاسم، طیب و طاہر بچپن میں وفات پاگئے تو ان کی جدائی پر جس طرح صبرو رضا کامظاہرہ کیاوہ ان کا ایمانی جذبہ تھا اور جوبچیوں کی تربیت کا حق ادا کردیا انہوں نے اپنی بیٹیوں حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جو تربیت کی وہ تاریخ کا ایک لائقِ تقلید حصہ ہے۔ آپﷺ کی ان بیٹیوں نے جہاں اپنے ابو اور امی کو اطاعت، خدمت اور وفا شعاری سے خوش رکھا، وہاں سسرال کے خاندان اور اپنے شوہروں سے بہت اچھے مراسم رکھے، تاریخ اسلام کا وہ ابتدائی حصہ تھا جب ان بچیوں نے ہوش سنبھالا، وہ دور ابتلاء، بھوک، ،تنگی مخالفت اور دشمنوں کے خوف جیسی آزمائشوں کا تھا، ان ایام میں ان بیٹیوں کی بے صبری اور جزع فزع حضرت محمدﷺ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی تھی۔ لیکن طیبہ، طاہرہ ماں کی تربیت نے ان کو صبر، استقامت، وفاشعاری اورسلیقہ مندی کا ایسا درس دیا کہ یہ بیٹیاں عورت ہونے کے باوجود سیدنا محمدﷺ کی تسلی کا ذریعہ بن گئیں ۔ یہ موضوع بڑا طویل ہے یہاں صرف حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے شوہر کی گواہی لکھی جاتی ہے۔،اس امید پر کہ شاید ان الفاظ سے حضورﷺاور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اس تربیت کا کچھ اندازہ ہو سکے جو انہوں نے اپنی اس بیٹی کی فرمائی۔ ان کے شوہر حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ جب ابتداء اسلام میں مسلمان نہیں ہوئے اور حضورﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپﷺ نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ بلا لیا، جدائی کے ان دنوں میں حضرت ابو العاصؓ ایک دن جبکہ وہ شام کیطرف سفر کر رہے تھے، تو پر درد آواز میں یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ ذَکَرْتُ زَیْنَبَ لَمَّا وَرَّکْتُ ارْمَا فَقُلْتُ ُسقْیًا لِّشَخْصٍ یَّسْکُنْ الحَرَمَا بِنْتُ الْاَمیْنِ جَزَاھَا اللّٰہُ صَالِحَۃً وَکُلُّ بَعْلٍ سَیُثْنِیْ بِالَّذِیْ عِلْمًا (الطبقات الکبریٰ: ۸/۳۱) جب ارم کے مقام سے گذرا تو زینبؓ کو یاد کیا اور کہا:اللہ اس شخص (حضرت محمدﷺ)کو شاداب رکھے جو حرم میں مقیم ہے، امین کی لڑکی کو اللہ جزائے خیر دے اور ہر خاوند اسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے۔