حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
عقلِ سلیم وفہم مستقیم اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی علیہ السلام کو جس طرح حسن وجمال ، جسمانی و روحانی کمالات سے نوازا، اسی طرح ان کو عقل کا وہ بلند معیار نصیب فرمایا جو پوری اولادِ آدم میں کسی کو نہ مل سکا، حضرت وہب بن منبہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر سے اوپر کتابیں پڑھی ہیں ،ان تمام میں مجھے ایک قدر مشترک یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے جب سے دنیابنائی ہے، اس وقت سے اس کے آخری دن تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے اور ہوں گے، ان سب کی عقل خدا داد کو جمع کیا جائے (تو بھی ہمارے نبی اکرم ﷺ کی عقل سے کم ہی رہے گی) اس کی مثال اس طرح ہے جیسے ساری دنیا کی ریت کو جمع کیا جائے تو اس میں ایک ذرہ پوری دنیا کی عقل کی مثال ہے اور باقی سارے ذرّات حضرت محمد کریم ﷺ کی عقل کی مثال ہیں ۔(الخصائص الکبریٰ :۱/۱۱۴) آپﷺ سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے اچھی رائے رکھتے تھے، نزولِ وحی سے پہلے دیگر ذرائع وحی کے ساتھ ساتھ آپﷺ اپنی بے نظیر عقل سے بھی اچھے فیصلے کرتے تھے، ایک دن آپﷺ کسی وجہ سے بے ہوش ہوئے، ہوش آیا تو آپﷺ کا دست مبارک سب سے پہلے اپنے تہبند پر گیا، آنکھیں کھولیں تو سامنے حضرت عباس رضی اللہ عنہ (آپ کے چچا) موجود تھے،آپﷺ کو ہوش میں آتے دیکھ کر وہ خوش ہوئے وہ دیکھ رہے تھے کہ حضرت محمدﷺ کی نظریں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور آپﷺ دونوں ہاتھوں سے اپنا تہبند سنبھالے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے : مجھے حکم ہے کہ میں بے لباس نہ ہوجائوں اور (اگر یہ احتیاط نہ کروں تو) لوگ مجھے مجنوں کہنے لگیں ،حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آپﷺ نو عمر تھے۔(الخصائص الکبریٰ :۱/۱۴۹) اسی واقعہ میں ہے کہ دیگر بچے تہبند اتارکر پتھر اٹھار ہے تھے ، اس قسم کے کھلے ماحول میں بھی آپﷺ کی خداد اد عقل نے راہنمائی کی کہ لباس کی بے احتیاطی مجنوں انسان سے ہی صادر ہوتی ہے۔ معلوم ہو اکہ جس طرح آپﷺ فرشتوں کی راہنمائی سے صراط مستقیم پر قائم رکھے گئے اس طرح اللہ نے آپﷺ کو اس شعوری صلاحیت سے نوازا تھاجس سے انسان خلاف انسانیت کاموں سے بچتا ہے اور انسانی بہبود کے کاموں کو بخوشی انجام دیتاہے، اسی کوعقل سلیم اور فہم مستقیم کہاجاتاہے جو اللہ نے حضورﷺ سے زیادہ کسی کو نہیں دی۔جہاں کے سارے کمالات یہ ان دنوں کی مُعطر خبریں ہیں جب آپﷺ مکہ کے پہاڑوں پہ بکریاں پالتے تھے (عیون الاثر:۱/۵۶)اور یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب وادی مکہ اور اس کے گرد ونواح میں محمد نام معروف ہو چکاتھا(دلائل النبوۃ للبیہقی ؒ باب ۵۴ بحوالہ کتاب