حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
’’آپ لوگوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں ۔‘‘ وہ مقروض ہوتے تو آپﷺ قرض کی ادائیگی فرما کر اس محزون و مغموم خاندان کو خوش فرماتے، کسی تاوان میں کوئی گرفتار ہوتا تو اس کی گلو خلاصی کی کوشش فرماتے تھے آپﷺ کے نقشِ قدم پہ چل کر جو لوگ انسانوں کی اس طرح خدمت کرتے ہیں ۔ وہ قومی فریضہ ادا کرتے ہیں جس قوم کے غریب امیروں کی اعانت سے محروم رہتے ہیں اس قوم کے امراء اور غرباء کا باہمی پیار ناممکن ہو جاتا ہے۔(۶)ناداروں کی خبر گیری: ریاست اور قوم کے خوش حال لوگوں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ سماج کے کمزوروں کا خیال رکھیں ۔ اللہ نے انسانوں میں مال دار، غریب ، متوسط اور ہر قسم کے لوگ پیدا فرمائے ہیں ، اس طرح کے رنگا رنگ پھول نہ ہوں تو دنیا کا گلدستہ سجتا نہیں ہے۔ ہمارے نبی علیہ السلام اس فطری تقسیم کے مقصد کو سمجھتے تھے، اس لیے جب اللہ نے آپﷺ کو تجارت وغیرہ کے ذریعے مالی آسودگی سے نوازا تو اس کے ذریعے یتیموں ، بیوائوں اور معاشرے کے اندر بے سہارا لوگوں کے کام آئے ، جناب ابو طالب نے سچ کہا: آپ یتیموں کے ماویٰ و ملجا ہیں ۔ (عیون الاثر: ۱/۱۵۰، الزرقانی، ج ۱، ص: ۳۵۷) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے تو پندرہ سال تک آپﷺ کا یہ عمل دیکھا، جس کی بنا پر انہوں نے یہ گواہی دی تھی۔ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ ’’آپﷺ ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں ۔‘‘ (بخاری حدیث نمبر ۳)(۷)حادثاتی واقعات میں انسانوں کی اعانت: صرف اپنے کھانے، پینے اور پہننے کی فکر کرنے کے لیے تو انسان کو اللہ نے پیدا نہیں فرمایا، اس کا خاصا تو یہ ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے، حضرت محمد کریمﷺ اپنی زبان سے اچھے کلمات ادا کرتے اور حق والے کی حمایت اور حادثاتی امور میں لوگوں کے کام آتے تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَاءبِ الْحَقِّ۔ (بخاری حدیث نمبر ۳) ’’آپ حق بجانب امور میں ہمیشہ امین اور مددگار رہتے ہیں ۔ (سیرۃ المصطفی: ۱/۱۳۸) یہ ترجمہ تو مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے محولہ بالا کتاب میں کیا، اس جملے کے مفاہیم میں سے ایک یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب قوم پر قدرتی آفات (کثرتِ بارش، زلزلے، وبائی امراض، سیلابی تباہیاں ہوں تو آپ چین سے نہیں بیٹھتے، امدادی امور انجام دیتے ہیں ۔ حضرت ملا علی القاریؒ فرماتے ہیں : اس سے مراد قدرتی آفات اور سماوی حادثات ہیں ۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۹/۳۷۳۲)