حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
میں تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا جواب ہوں ، جو انہوں نے خانہ کعبہ کو تعمیر کرنے کے بعد اللہ سے مانگی تھی کہ اے اللہ! ایسا رسول بھیج، جو اس بیت اللہ میں تلاوتِ آیات کرے، لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اوران کا تزکیہ نفس کرے۔(سورۃ البقرہ:۱۲۹)حضرت عباس رضی اللہ عنہ و ابو طالب کا شکریہ: حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام سے پہلے بھی حضرت محمدﷺ کا بہت خیال رکھا، قدر دانی کے طور پر ان کے بارے میں آپﷺ فرمایا کرتے تھے، یہ میرے چچا میرے باپ کے برابر ہیں کسی نے ان کو ستایا تو مجھے بہت تکلیف ہوگی۔ (معجم الصحابہ: ۱۸۴۴) جناب ابو طالب کی خدمات کو بھی آپﷺ سراہا کرتے تھے کہ جب تک وہ زندہ رہے میرے لیے حفاظت کا سامان رہا۔ (اسد الغابہ: ۱/ ۲۶)حضرت فاطمہ بنت اسد و ام ایمن رضی اللہ عنہما کی تعریف: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ (ہمارے نبیﷺ کی چچی) نے بچپن میں آپﷺ کی جو خدمت کی، اس کے اعتراف میں ان کی وفات پر فرمایا: اُمِّی بَعْدَ اُمّیْ۔ (اسد الغابہ فاطمہ بنت اسد) ’’یہ میری ماں کے بعد میری ماں تھیں ۔‘‘ حضرت اُمّ ایمن رضی اللہ عنہا نے والدہ کی وفات کے بعد آپﷺ کی خدمت کی تھی، ان کو آپﷺامی فرمایا کرتے تھے، ایک دن انہوں نے اپنی امیت کی بناء پر آپﷺ سے کہا: آپﷺ مجھے پانی پلا دیں ، حضورﷺ نے مسکرا کر پیش کر دیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/ ۷۸)اُمّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی قدردانی: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: انہوں نے میری تصدیق کی، مال میں شریک کیا،اور مجھے اللہ نے ان سے اولاد جیسی نعمت سے نوازا۔ (الاستیعاب: ۴/ ۱۸۲۴) الغرض اپنے متعلقین کا شکریہ ادا کرنا ایک انسانی حق ہے جو حضورﷺ ادا فرماتے تھے۔ عام طور پر لوگ اپنی بیوی کے احسانات کا شکریہ ادا نہیں کرتے، ہمارے نبی علیہ السلام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ام المومنین کی خدمات کی قدر فرمایا کرتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔