حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
۷۔ یہ واقعہ ایک نوید تھی، ان انسانوں کے لیے جنہوں نے مستقبل میں آپﷺ کو نبی تسلیم کرنا تھا، اس موقعہ پر حجر اسود والی چادر اگرچہ سب نے اٹھائی تھی لیکن اسے نصب کرنے کی سعادت اسے ہی میسر آئی، جس کے مبارک قدموں میں سعادتوں کا خزانہ تھا۔ ۸۔ ایک مسلمان کے لیے تعمیر کعبہ کے اس واقعہ میں یہ سبق موجود ہے کہ جس نبی نے قبل از اعلانِ نبوت پوری قوم کی ایک لا ینحل مشکل کو اپنی ایک ادا سے حل فرما دیا، اس نے بعد از نبوت جو اسلوبِ حیات دیا ہے اس میں کتنی مشکلات کا حل موجود ہو گا، لہٰذا محمدﷺ کے پیروکاروں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اپنے مسائل کا حل دین اسلام سے باہر تلاش کرتے پھریں ؟جزیرۃُ العرب میں امن کی کوششیں یہ سرزمین نبیوں کی برکتوں اور صالح انسانوں کی توجہات کا مرکز رہی تھی، اس لیے اس خطہ زمین کا احترام اولاد آدم میں لمبے عرصہ سے چلا آ رہا تھا، لیکن اب جبکہ سید دو عالمﷺ بیس سال کے ہوئے، تو عرب میں لڑائیوں کا ایک طویل سلسلہ دیکھا، جس کی وجہ سے آپﷺ متفکر رہتے تھے کہ کوئی امن کا راستہ نظر آئے اور آپﷺ اس سلسلے کا حصہ بن جائیں ، آپﷺ کے علاوہ بھی کچھ شریف النفس چاہتے تھے کہ حرم اور اس کے قرب و جوار کے علاقے لڑائی جھگڑوں سے مامون رہیں ، بالآخر آپﷺ کی امن کی خواہش پوری ہوئی۔ حرب فجار کے بعد بعض طبیعتوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل اور غارت گری کے انسداد کے لیے فضل بن فضالہ اور فضل بن وداعۃ اور فضیل بن حارث نے ایک معاہدہ مرتب کیا تھا جو انہی کے نام پر حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا۔ اب دوبارہ اس کی تجدید کی جائے۔ جب اصلاح احوال کی یہ سوچ ایک بارپھرابھر رہی تھی،تو اس آواز پر لبیک کہنے والوں میں ایک ایسے شخص کا نام شامل ہو چکا تھا جس کے ذریعے اللہ نے پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا تھا ،اسے لوگ محمد اَلْاَمِیْنَ اَلصَّادِقْ کہا کرتے تھے۔ جب شوال میں حرب فجار کا سلسلہ ختم ہوا تو ذیقعدہ الحرام میں حلف الفضول کی سلسلہ جنبانی شروع ہوئی اور یہ سوال پیدا ہوا کہ بارش کا پہلا قطرہ کون بنے؟ جو ابتدا کرے گا اسے جان، مال اور وقت کی قربانی دینی ہو گی چنانچہ خانوادہ عبدالمطلب (آپﷺ کے ددھیال) سے ہی اس آواز کو قوت ملی، سب سے پہلے زبیر بن عبدالمطلب اس معاہدہ اور حلف کے محرک ہوئے اور بنو ہاشم اور بنی تمیم عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے عبداللہ بن جدعان نے سب کے لیے کھانا تیار کرایا۔ (الروض الانف: ۲/۴۶)