حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
کرتے تھے جو بعد از نبوت فرما رہے ہیں (ان کے قول و فعل تضاد سے خالی ہیں ) چنانچہ رات کی تاریکی میں صبح صادق سے پہلے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا اور مسلمان ہو گئے جب حضورِ اکرمﷺ مدینہ آئے تو یہ بھی حاضر ہو کر آپﷺ کے محافظ دستے کے ایک رکن بن گئے۔ (اسد الغابہ: ۳/۴۸، الوافی بالوضیات: ۳۰/۳۸) انہیں علم تھا کہ آپﷺ کی پہریداری کوئی پھولوں کی سیج نہیں یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے، دنیائے یہودیت و نصرانیت کو آپﷺ ایک آنکھ نہیں بھاتے کسی وقت بھی حملہ ہو سکتا ہے، جس سے جانثار محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ اس کے باوجود قبولِ ایمان کے دن ہی ان کا فدا ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ آپﷺ کے عہدِ شباب سے ہی مرید ہو چکے تھے اور آپﷺ کے قدموں کی خاک پر نثار تھے۔ نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہےحضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچیرے بھائی تھے۔ پاکیزہ اخلاق و صاحب کردار تھے، آپﷺ سے ۵ سال عمر زیادہ تھی، قریش کے معززین و روساء میں گنے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے حرم کا منصب رفادہ ان ہی کے ہاتھ تھا۔ اور دارالندوہ کے مالک و منتظم اعلیٰ تھے، (اسد الغابہ: ۱/۵۲۲حضرت حکیم رضی اللہ عنہ بن حزام) کریم النفس اور غریب پرور تھے۔ (الوافی بالوفیات: ۳۴/ ۴۸۹) ان کے متعلق بھی لکھا ہے: کَانَ صِدِّیْقًا لِّلنَّبِیﷺ قَبْلَ الْبِعْثَۃِ وَبَعْدَہَا (الاعلام للزرکلی: ۲/۲۴۹) ترجمہ:وہ نبوت ملنے سے پہلے اور بعد میں بھی آپﷺ کے دوست تھے، وہ غلاموں کو آزاد کرتے اور مسافروں کو سواری مہیا فرماتے تھے۔ (ملاحق تراجم الفقہاء: ۳/۲۲) اگرچہ آٹھ سال بعد اسلام قبول کیا، تاہم نہ انہوں نے حضوراکرمﷺ کوتنگ کیا اور نہ آپﷺکے ساتھیوں کو ستایا اور نہ گستاخی کی، شعبِ ابی طالب وغیرہ مشکل حالات میں انہوں نے مسلمانوں کی مدد بھی کی۔ (عیون الاثر: ۱/۱۴۹) قبولِ اسلام سے پہلے مدینہ منورہ آپﷺ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے اور ایک قیمتی جُبّہ ہدیہ کیا، آپﷺ نے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ میں مشرکین کا ہدیہ قبول نہیں کرتا اور قیمتاً قبول فرمایا۔ (حیاۃُ الصحابہ: ۲/۵۱۴) حضرت حکیم رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کی خوشی کیلئے قیمت لے لی تاہم ان کے دل وماغ پر یہ واقعہ شدید اثرانداز ہوا، وہ چارسو کلومیٹر سے زائد سفر کرکے حضورﷺ سے ملنے آئے تھے ،مدینہ میں سے واپس ہوئے تو افسردہ تھے، پھر بہت جلد اسلام کے دامن سے وابستہ ہوگئے۔