حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
فرشتوں کی معیّت اور شیاطین سے حفاظت حضرت محمدﷺ چودہ سال کے تھے، تعمیر کعبہ میں کسی نے آپﷺ کو کہا : محمّد! اپنی چادر اتارکراپنے کاندھے پہ رکھو!تاکہ پتھر اٹھانے سے کاندھازخمی نہ ہو،سید دو عالمﷺ نے فرمایا: مجھے اس طرح بے لباس ہونے سے روکا گیا ہے(سیرہ ابن کثیر: ۱/۲۵۰)اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کے ذریعے یا کشف والہام کے ذریعے آپﷺکو برائی سے روکا جا رہا تھا اور انسانیت کی پٹڑی پہ چلنے کا کہا جا رہا تھا۔ آپﷺ کی ذات ِاقدس کے ساتھ فرشتوں کی موجودگی کے مزیدمختلف شواہد یہ ہیں ۔ (۱)حضرت محمد ﷺ سفرِ شام میں جناب ابوطالب کے ساتھ تھے اس وقت بھی اور جب آپﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر تجارت کے لیے گئے اس وقت بھی فرشتوں نے آپﷺ پر سایہ کیا تھا تاکہ دھوپ کی شدت سے آپﷺ کو تکلیف نہ ہو۔ (سیرۃ ابن کثیر: ۱/۲۶۲) فرشتوں کی معیت اللہ کا ایک انعام ہے اور دوسرا ایک انعام یہ بھی ہوا کہ شیطانی معیت اور اس کے اثرات سے اللہ نے آپﷺ کو بچایا۔ (۲) آپ کا سینہ چاک کیا گیااوراسے نورِ ایمانی بھر دیا گیا۔یہ کام بھی فرشتوں نے کیا۔ (المواھب اللّدنیۃ : ۲۰/۴۴۵ زادا لمعاد: ۲/۲۲) (۳) جب شیطان نے آپﷺ کو بت کی طرف راغب و متوجہ کرنا چاہا تو اللہ نے فرشتوں کے ذریعے آپﷺ کو برائی کی جگہ سے اٹھوا لیا۔ (اَلسّیرَۃُ الحَلْبِیَۃ: ۱/۱۷۹) (۴) جب بیت اللہ کی تعمیر ہوئی اور حجر اسود کو مجوزہ جگہ نصب کرنے کا وقت آیا تو مکتہ المکرمہ کا ہر شخص تمنا کرنے لگا کہ یہ مبارک پتھر میں رکھوں گا، بالاخر سب نے اتفاق کیا کہ محمد ﷺ جو فیصلہ کریں گے وہ مانا جائے گا، آپ ﷺ نے چادر میں پتھر رکھا اور سب کو اٹھانے کا حکم دیا، جب نصب کی جگہ قریب آگئی اور حضور ﷺ نے اٹھا کر نصب کرنا چاہا تو ایک شخص جو نجد کا معمر آدمی تھا وہ معاونت کے لیے آگے بڑھا، لیکن حضور ﷺ اس کے لیے تیار نہ ہوئے کہ اس نیک کام میں یہ شخص آپﷺ کا ہاتھ بٹائے ، آپﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ یہ منظر دیکھ رہے تھے چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور یہ سعادت حاصل کی ۔ وہ بوڑھا نجدی بولا: تم نے ایک نو عمر اور غریب لڑکے کو تو اتنی بڑی عزّت بخشی مجھے تم پر بڑا فسوس ہے، حالانکہ تم بڑے عقل مند ہو، عزو شرف کے امین ہو، ایسے لگتا ہے، جیسے تم اس کے غلام اور یہ تمہارے آقا ہیں ، یہ شیطان تھا جو حضور